سلمان کی سٹوری 

https://www.facebook.com/101881389054808/posts/101927249050222/?app=fbl
Dirty Stories In Urdu Language Post No.2 | سلمان کی سٹوری قسط نمبر 2 :اردو گندی کہانیاں | گندی باتیں | Behen bhai


قسط نمبر 2
امبرین : ہمیں معاف کر دیں آپی . ہم نے جان بوجھ کے کچھ نہیں سنا . میں نے تو ثمر ین کو اسی لیے باہر روک لیا تھا کہ کہیں آپ تینوں کوئی ذاتی قسِم کی باتیں نا کر رہے ہوں . ہمارا اِرادَہ آپ کی باتیں سننے کا نہیں تھا مگر آپ لوگ اتنی اونچی آواز میں بات کر رہے تھے کہ باہر آسانی سے آواز آ رہی تھی . اب تو ہم یہاں سے جانے کا سوچ رہی تھیں کہ بھائی کو ہمارے باہر ہونے کا پتا چل گیا . ہمیں معاف کر دیں آپی . یقین کریں ہم نے کسی کو کچھ نہیں بتایا اور نا ہی کسی کو بتائیں گی . بس ایک بار معاف کر دیں .
میں : تم دونوں کو ہم سے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے گڑیا . ہماری زاتی قسِم کی باتیں تم دونوں کی ذات سے بھی تعلق رکھتی ہیں . میں نے ان سے بھی یہی کہا تھا کہ مجھے بھائی سے زیادہ دوست سمجھیں اور اپنی ہر خواہش اپنا حق سمجھتے ہوئے مجھ سے کہیں . اسے پُورا کرنا میرے ذمے ہو گا . وہ تو مہرین آپی کی خواہش ہی کچھ . . . . . خیر چھوڑو . اب یہ بات پانچوں کے درمیان طے ہو گئی کہ ہم اپنی آپس کی باتیں کسی سے نہیں کہیں گے . ہیں نا . . .
میری بات سن کے دونوں نے زور سے ہاں میں سر ہلایا تو مہرین آپی اور نورین آپی کی بھی جان میں جیسے جان آئی اور میں بھی مطمئن ہو گیا .
ثمر ین : بھائی آپ واقعی مہرین آپی کی خواہش پہ . . . .
میں : مجبوری ہے گڑیا . یہ خواہش ان کی حسرت بن گئی ہے کہ کوئی لڑکا ان کے ہونٹ چومے . اگر ان کی شادی ہوتی تو یہ سب ان کا شوہر کرتا . مگر شادی تو شاید آپ چاروں میں سے کسی کی بھی نا ہو . اِس لیے اب مجھے ہی ان کی خواہش پوری کرنی ہو گی . ورنہ اگر کہیں مایوس ہو کے انہوں نے باہر کسی لڑکے سے . . . یہ نا میرے لیے قابل قبول ہوتا نا ہمارے خاندان کے لیے . ہماری تو ہر طرف بدنامی ہو جانی تھی نا . اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ چاروں کی ہر خواہش میں پوری کروں گا . چاھے وہ میرے لیے کتنی ہی مشکل کیوں نا ہو .
میری باتیں سن کے مہرین آپی نے ایک بار پِھر شرمندگی سے سَر جھکا لیا . شاید اپنی خواہش ظاہر کر کے اب وہ پچھتانے بھی لگی تھیں . اور شاید اب اپنی خواہش سے دستبردار بھی ہونے کا فیصلہ کر چکی تھیں . اور فل حال ان کے لیے یہی ٹھیک تھا کہ ابھی وہ اپنی خواہش کو بھول ہی جائیں . مگر بعد میں موقع ملنے پہ مجھے ان کی یہ خواہش پوری ضرور کرنی تھی
مہرین آپی : ( اپنی جگہ سے اٹھ کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے ) میں اب چلتی ہوں سنی .
ان کی بات سن کے میں بھی دروازے کی طرف بڑھا اور جیسے ہی وہ دروازے پہ پوھنچیں میں بھی ان کے قریب پہنچ گیا .
میں : ( ان کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے ) رات کو 111 بجے . وہ گرین والا ڈریس پہن لینا .
میری بات سن کے وہ یوں گھبرا کے باقی تینوں کی طرف دیکھنے لگیں کہ کہیں کسی نے کچھ سن نا لیا ہو . مگر ان کے یوں چونک کے دیکھنے پہ باقی تینوں حیران تھیں کہ انہیں اچانک کیا ہوا جو اتنا گھبرا گئیں . میں نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے جانے کا اشارہ کیا تو وہ فوراً کمرے سے نکل گئیں .
مہرین : بھائی . آپی ناراض ہو گئی ہیں نا ؟
میں : ارے نہیں گڑیا . وہ کیوں ناراض ہوں گی . بس ذرا شرمندگی محسوس کر رہی ہیں . اِس لیے سب کا سامنا نہیں کر پا رہیں . اگر سب نارمل رہیں گے تو وہ بھی ٹھیک ہو جائیں گی .
نورین آپی : میں بات کروں ان سے ؟
میں : جی ضرور کیوں نہیں .
نورین آپی بھی شاید تھوڑی بہت شرمندگی محسوس کر رہی تھیں اور بھاگنے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھیں . میری بات سن کے وہ بھی کمرے سے نکل گئیں . اب کمرے میں میرے ساتھ امبرین اور ثمر ین رہ گئی تھیں .
ثمر ین : بھائی کیا یہ بھی شرمندگی محسوس کر رہی تھیں ؟ انہوں نے تو اپنی خواہش بھی ظاہر نہیں کی تھی .
میں : یار اب اتنی راز کی باتیں تو نا پوچھو . وہ دونوں پہلے ہی گھبرائی ہوئی ہیں .
ثمر ین : ( ہنستے ہوئے ) ٹھیک ہے نہیں پوچھتی . آئیں بیٹھیے نا یہاں .
میں ان دونوں کے ساتھ اپنے پلنگ پہ بیٹھ گیا اور امبرین کے اصرار پہ ایک اور انگلش مووی کی اسٹوری سنانے لگا . وہ دونوں معصومیت بھرے انداز میں میرے دائیں بائیں کندھے سے لگ کے کہانی سنتی رہیں .
پِھر ہم رات کے کھانے کے وقت تک کمرے سے نہیں نکلے . کھانے کے بعد ہم سب نے اکٹھے کچھ دیر چہل قدمی کی اور پِھر سونے کے لیے اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے . مجھے تو ابھی سونا نہیں تھا . رات 11 بجے کا انتظار جو تھا
رات 11 بجنے سے 100 منٹ پہلے ہی میں اپنے کمرے سے نکل آیا . پہلے پوری حویلی کا ایک رائونڈ لگایا اور سب کے سونے کا یقین ہونے کے بعد ٹھیک 11 بجے میں مہرین آپی کے کمرے کے دروازے پہ کھڑا تھا . دروازہ آج اندر سے لوک نہیں تھا . ہینڈل گھماتے ہی دروازہ کھل گیا . سامنے ہی مہرین آپی گرین کلر کے ریشمی ڈریس میں اپنے پلنگ پہ گھبرائی ہوئی سی بیٹھی تھیں . ان کی نظریں دروازے پہ جمی ہوئی تھیں . یقینا میرا ہی انتظار تھا اُنہیں .
میں : تھینکس آپی . میری اتنی سی خواہش مان کے آپ نے میرا دِل خوش کر دیا .
آپی : سنی . کسی کو پتا تو نہیں چلے گا نا ؟ مطلب اگر کسی کو پتا چلا کہ تم رات کو میرے کمرے میں آئے تھے تو غلط تو نہیں سمجھے گا نا ؟
میں : بے فکر رہیں آپی . سب سو رہے ہیں . میں کمرے کا دروازہ بھی لوک کر دیتا ہوں . کوئی آئے گا تو پتا چل جائے گا .
میں نے مڑ کے دروازہ لوک کیا اور پِھر ان کی طرف بڑھ گیا .
آپی : سنی تم کچھ . . . کچھ غلط تو نہیں کرو گے نا ؟
میں : ( آپی کو تسلّی دیتے ہوئے ) میں کچھ نہیں کروں گا آپی . جو بھی کرنا ہو گا آپ ہی کریں گی . شاید اسی طرح آپ کو مجھ پہ یقین آ جائے .
آپی : برا نا ماننا سنی . دراصل پہلی بار ہے نا . ڈر لگ رہا ہے .
میں نے آپی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور آگے بڑھ کے ان کے پاس ان کے پلنگ پہ بیٹھ گیا . آپی کافی دیر تک گھبرائی ہوئی سی بیٹھی رہیں . پِھر کچھ ہمت کر کے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ لیا .
آپی : سنی . . مجھے اپنی بانہوں میں لے لو . مم . . . . مجھ سے نہیں ہو گا .
میں : ( کچھ سوچتے ہوئے ) آپی . . . . لیٹ کے کریں ؟
میری بات پہ آپی نے ہچکچاتے ہوئے ہاں میں سَر ہلایا تو میں اسی طرح ٹانگیں نیچےلٹکائے پلنگ پہ لیٹ گیا اور اُنہیں اپنے اوپر کھینچ لیا . پہلے تو وہ کچھ گھبرا سی گئیں اور خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی رہیں مگر پِھر انہوں نے خود کو میری بانہوں میں ڈھیلا چھوڑ دیا . میں نے کچھ دیر اُنہیں یونہی بانہوں میں جکڑے رکھا اور وہ میرے کندھے پہ سَر رکھے خاموش اور پر سکون سی میرے اُوپر لیٹی رہیں . پِھر میں نے دونوں ہاتھوں میں ان کا چہرہ پکڑ کے ان کے ہونٹ اپنے ہونٹوں سے لگائے اور ان کو ہونٹوں کو چومنا اور چوسنا شروع کر دیا . کچھ دیر تو وہ مدھوش اور سا کت ( اسٹل ) رہیں لیکن پِھر انہوں نے بھی میرا ساتھ دینا شروع کر دیا اور بڑے مزے سے میرے ہونٹ چومنے لگیں . ہم کافی دیر ایک دوسرے کے ہونٹ چومتے رہے . ان کے ہونٹوں میں عجیب سا نشہ تھا . ایسا نشہ کہ ایک بار اُنہیں چومنے کے بعد کبھی چھوڑنے کو دِل نہیں کرتا تھا . یوں لگتا تھا کوئی رس ٹپک رہا ہو ان ہونٹوں سے جو مجھے مزے اور سرور کی دنیا کی سیر کرا رہا تھا . میں بھی مدھوش سا ہو گیا تھا . ہوش تب آیا جب آپی اچانک ہی مجھ سے الگ ہو کے سائڈ پہ ہو گئیں .
اور یہ دیکھ کے میرے تو ہوش ہی اڑ گئے کہ وہ اپنی قمیض نیچے کر رہی تھیں جو نا جانے کب اور کیسے شاید مجھ سے ہی اوپر ہو گئی تھی اور ان کا برا بھی اپنی جگہ پہ نہیں تھا جسے انہوں نے خود ہی ٹھیک کیا تھا . پتا نہیں ان کے ہونٹوں کی لذت میں سرشار میں نے کب ان کی قمیض اوپر کر کے ان کے بوبز پہ سے برا ہٹا دیا تھا . اور اب ان کا سرخ چہرہ ، چڑھتی ہوئی سانسیں ، جھکی ہوئی نظریں اور کانپتے ہوئے ہاتھ مجھے ندامت اور شرمندگی کے سمندر میں غرق کر رہے تھے .
میں : سوری آپی . مجھے پتا نہیں یہ کیسے ہو گیا . مگر قسم سے میں نے یہ جان بوجھ کے نہیں کیا . پتا نہیں کیسے ہو گیا یہ سب مجھ سے . میں تو آپ کے ہونٹ چومتے ہوئے نشے کی سی کیفیت میں تھا . پتا نہیں کب یہ سب ہو گیا .
آپی : ( کانپتی ہوئی آواز میں ) ٹھیک ہے . تم جاؤ . اور کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ تم یہاں تھے .
میری معذرت انہوں نے قبول کر تو لی تھی مگر پِھر بھی میں اپنے اندر ندامت محسوس کر رہا تھا . مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا . ابھی آپی اِس کے لیے ذہنی طور پہ تیار نہیں تھیں اور میری یہ حرکت ان کی نظروں سے مجھے ہمیشہ کے لیے گرا سکتی تھی ، میرا اعتبار ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتی تھی . پتا نہیں میں یہ سب کیوں اور کیسے کر بیٹھا تھا .
اپنے کمرے میں پہنچ کے بھی میں کافی دیر تک شرمندگی محسوس کرتے ہوئے بے چینی سے ادھر اُدھر ٹہلتا رہا . پِھر تھک کے اپنے پلنگ پہ گر سا گیا اور پِھر نا جانے کب مجھے نیند آ گئی .اگلی صبح آنکھ کھلنے سے پہلے ہی مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا سَر کسی کی نرم گود میں ہے اور کوئی اپنی نرم انگلیوں سے میرے بال سہلا رہا ہے . یقینا یہ میری بہنوں میں سے ہی کوئی ایک تھی . آنکھ کھولی تو مہرین آپی کا مسکراتا ہوا چہرہ میرے سامنے تھا . انہوں نے اب تک وہی رات والے گرین کلر کے ریشمی کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کی آنكھوں کے سرخ دوڑے ظاہر کر رہے تھے کہ ساری رات وہ بالکل نہیں سوئیں
میں : آپی آپ ؟ آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں نا ؟ قسم سے میں نے جان بوجھ کے کچھ نہیں کیا تھا . پتا نہیں کیسے ہو گیا
آپی : میں جانتی ہوں یہ سب کیسے ہو گیا . اِس میں تمہارا اتنا قصور نہیں تھا جتنا میرا تھا .
میں : کیا مطلب ؟
آپی : تم جب میرے ہونٹ چوم رہے تھے تو میں نے تمہارے ھاتھوں کو اپنی چھاتی ( بوبز ) کے پاس محسوس کیا تھا . پہلے تو میں کچھ سمجھی نہیں . پِھر سوچا شاید تمھیں کچھ چُبھ رہا ہے تو میں ذرا اوپر اٹھ گئی . اور میرے اوپر ہوتے ہی تم نے میری چھاتی ( بوبز ) کو سہلانا اور دبانا شروع کر دیا . پہلے تو مجھے عجیب سا لگا . پِھر مزہ آنے لگا . میں نے سوچا اگر ایسے اتنا مزہ آ رہا ہے تو قمیض کے بغیر کتنا مزہ آئے گا . اسی لیے میں نے قمیض اوپر کر دی تھی .
میں : آپ نے خود . . ؟
آپی : ہاں . . . لیکن صرف قمیض . برا تم نے خود . . . . اور اسی لیے تو میں گھبرا کے تم سے الگ ہو گئی تھی کہ کہیں کچھ . . .
آپی کی بات سن کے میں بے اختیار سَر پکڑ کے رہ گیا . انجانے میں مجھ سے یہ کیسی حرکت سرزد ہو گئی تھی . اگر آپی سچ مچ ناراض ہو جاتیں تو اُنہیں منانا میرے لیے کتنا مشکل ہو جاتا . کیا پِھر وہ کبھی میرا یقین کر پاتیں ؟
میں : سوری آپی . یہ سب انجانے میں ہوا ہو گا . میں نے جان بوجھ کے نہیں کیا . میں تو نشے کی سی کیفیت میں تھا . آپ کے ہونٹ اتنے رسیلے اور دلکش ہیں کہ . . . پِھر کچھ ہوش ہی نہیں رہتا .
میں نے آپی کا ہاتھ پکڑ کے ایک بار پِھر معافی مانگتے ہوئے اپنی بےخودی کی وجہ بتائی تو شرم سے آپی کا چہرہ سرخ پڑ گیا . ہونٹوں پہ بھی بڑی پیاری سی مسکراہٹ سج گئی . آپی یوں شرما رہی تھیں جیسے شوہر کے تعریف کرنے پہ بِیوِی شرماتی ہے . اور انجانے میں شاید میں ان کی اِس فطری خواہش کی بھی تسکین کر گیا تھا .
ابھی کل ہی تو ان سے سنا تھا کہ ان کا دِل چاہتا تھا کوئی اُنہیں دیکھنے اور سراہنے والا ہو ، کوئی ان کے حسن کی تعریف کرے . اور ابھی ان سے معذرت کرتے ہوئے میں ان کے ہونٹوں کی ایسی تعریف کر گیا تھا کہ اچھی بھلی بولڈ لڑکی بھی شرما جاتی .
آپی : تمھیں واقعی میرے ہونٹ اتنے اچھے لگتے ہیں سنی ؟ دِل رکھنے کے لیے تو نہیں کہہ رہے نا ؟
میں : نہیں آپی قسم سے . میرا تو رات کو دِل ہی نہیں کر رہا تھا کہ اپنے ہونٹ آپ کے ہونٹوں سے الگ ہونے دوں . اتنا مزہ آ رہا تھا کہ میں بھلا ہی بیٹھا تھا کہ میں کہاں ہوں اور کیا کر رہا ہوں . اسی لیے تو مجھ سے وہ حرکت ہو گئی .
آپی : کوئی بات نہیں . میں ناراض نہیں ہوں . اور پِھر میری بھی تو غلطی تھی . تم شرمندہ مت ہو .
میں : تو اِس خوشی میں منہ تو میٹھا کر دیں .
میری بات سن کے آپی پہلے تو کچھ نہیں سمجھیں اور الجھن بھری نظروں سے مجھے دیکھتی رہیں پِھر ان کی آنكھوں میں جیسے اچانک ہی چمک سی آ گئی . وہ میری بات کا مفہوم سمجھ گئی
اور ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اِس بات کا واضح اشارہ دے رہی تھی . اگلے ہی لمحے انہوں نے اپنا سَر جھکایا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے چپکا دیے اور میں ایک بار پِھر نشے کی سی کیفیت میں خود کو فضاؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرنے لگا . مگر اِس بار میں نے اپنے ھاتھوں کو اپنی کمر کے نیچے دبا لیا تھا کہ کہیں پِھر کوئی ایسی حرکت نا ہو جائے جو بَعْد میں مجھے ان سے شرمندہ کر دے . نا جانے کتنی دیر ہم دونوں یوں ہی ایک دوسرے کے ہونٹوں سے ہونٹ چپکائے مستی میں ڈوبے رہے . ہوش تب آیا جب دروازے پہ دستک کے ساتھ نورین آپی کی آواز سنائی دی اور ان کی آواز سن کے آپی فوراً ہی مجھ سے الگ ہو کے بیٹھ گئیں .
نورین آپی : آپی یہ آپ کیا کر رہی تھیں ؟ اگر میری جگہ کسی اور نے دیکھ لیا ہوتا تو . . . جانتی ہیں کتنا بڑا طوفان کھڑا ہو سکتا تھا ؟
مہرین آپی : مجھے خوامخواہ ڈرانے کی کوشش نا کرو لڑکی . تمھیں اچھی طرح پتا ہے کہ امی ابّا اتنی صبح صبح اِس طرف
کا رخ نہیں کرتے . اور تم تینوں تو اپنے رازدار ہو . ہمارے سب دکھ سکھ سانجھے ہیں . اگر تمہارے علاوہ ثمر ین اور امبرین بھی دیکھ لیتیں تو بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی . مہرین آپی کے پر اعتماد اندازِ پہ مجھے حیرت ہو رہی تھی . ورنہ میری تو اب تک بری حالت تھی . زندگی میں پہلی بار رنگے ھاتھوں پکڑا گیا تھا اور وہ بھی اپنی ہی بہن کے ساتھ . ( کسی غیر لڑکی سے میں کبھی قریب بھی نہیں ہوا تھا . ) اگر نورین آپی کی جگہ کسی ملازمہ نے جھانک لیا ہوتا تو اب تک شاید پوری حویلی میں تباہی مچ گئی ہوتی .
\
نورین آپی : خدا کی بندی . دروازہ ہی بند کر لیتیں . اگر ہم تینوں کی بجائے کسی ملازمہ نے جھانک لیا ہوتا تو ؟
نورین آپی کو بھی وہی خدشہ تھا جو مجھے تھا . اور ان کی یہ بات سن کے تو مہرین آپی کو بھی صورت حال کی سنگینی کا
احساس ہوا تھا . اب ان کے چہرے کا رنگ بھی اڑا ہوا تھا .
مہرین آپی : تم ٹھیک کہہ رہی ہو نورین . مجھ سے واقعی بڑی غلطی ہو گئی . بس خیال ہی نہیں رہا . سنی کو جگانے آئی تھی تو اس وقت تو موڈ نہیں تھا . اِس لیے دروازہ بھی کھلا چھوڑ دیا . بَعْد میں اچانک ہی . . .
نورین آپی : خدا کے لیے احتیاط کیا کریں آپی . ایسے کاموں کے لیے یہ وقت بالکل مناسب نہیں ہے اور پِھر ایسی
لاپرواہی . . . . آئندہ اگر کچھ نا بھی کرنا ہو تو اکیلے میں دروازہ بند کر لیا کریں . بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ سنی کے ساتھ جب بھی ہم چاروں میں سے کوئی ایک یا چاھے سب ایک ساتھ بھی ہوں تو دروازہ بند ہی ھونا چاہیے
مہرین آپی : پکا وعدہ . آئندہ ایسی کوئی شکایت نہیں ہو گی .
نورین آپی : ٹھیک ہے . آپ جا کے ثمر ین اور امبرین کو جگہ دیں . میں ابھی آتی ہوں .
مہرین آپی : اب میرے سامنے بھی شرماؤ گی ؟
نورین آپی : نہیں آپ جائیے . میں اتنی بے شرم نہیں ہوں .
نورین آپی کی بات سن کے مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ وہ بھی اِس وقت کسی خاص موڈ میں آئیں تھیں . اور مہرین آپی بھی یہی بات محسوس کر کے معنی خیز اندازِ میں مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئیں تو نورین آپی نے آگے بڑھ کے کمرے کا دروازہ بند کر کے لوک کر دیا .
میں : ( کچھ گھبراتے ہوئے ) آپی آپ کیا کرنے لگی ہیں ؟
آپی : تمہاری جان کیوں نکلی جا رہی ہے ؟ فکر مت کرو . تمہاری عزت نہیں لوٹنے لگی . بس تم سے ایک بات کرنی ہے
میں : تو بات کرنے کے لیے دروازہ لوک کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
آپی : میں آپی کی طرح لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی . یہ ضروری تھا . اب ادھر بیٹھو اور بات سنو میری وہ میرے ساتھ میرے پلنگ پہ بیٹھ گئیں . اور کافی دیر تک اپنی انگلیاں مروڑتے ہوئے شاید کچھ کہنے کے لیے ہمت جمع کرتی رہیں .
آپی : سنی ! تمھیں میں کیسی لگتی ہوں ؟ مطلب اگر تم مجھے ایک مرد کی نظروں سے دیکھو تو . . . .
میں : آپ کسی بھی مرد کا آئیڈیل ہو سکتی ہیں آپی . بری لگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا .
آپی : ہم چاروں کی قسمت میں کسی مرد کا آئیڈیل بننا نہیں لکھا سنی . تمہاری نظروں میں اپنے لیے پسندیدگی دیکھی تو اپنے دِل کی بات کہنے کی ہمت کر رہی ہوں . دیکھو ناراض مت ھونا . اگر برا لگے تب بھی پیار سے منع کر دینا . تمہاری ناراضگی میں برداشت نہیں کر پاؤں گی .
میں : آپ کھل کے کہیں آپی . میں وعدہ کرتا ہوں ناراض نہیں ہوں گا .
آپی : ( ہچکچاتے ہوئے ) میں تم سے . . . سح . . . . . . . شادی . . . کرنا . . شادی کرنا چاہتی ہوں .
میں : ( حیران ہو کر ) کیا ؟ مگر آپ سے میری شادی کیسے ہو سکتی ہے ؟ بہن بھائی کا نکاح نہیں ہو سکتا .
آپی : نکاح سب کے سامنے ہوتا ہے ، جو نہیں ہو سکتا . مگر سہاگ رات تو . . . سب سے چھپ کے ہوتی ہے نا . . وہ تو . . .
میں ان کی اِس بات پہ بوكھلا کے رہ گیا تھا . مجھے امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی مجھ سے یہ خواہش کر بیٹھیں گی . مجھے
یہ اندازہ تو تھا کہ اپنی شادی سے مایوسی نے میری بڑی دونوں بہنوں کو اپنے ارمان کچلنے پہ مجبور کر دیا ہے . اور اب جب کہ میں نے انہیں ہر خواہش پوری کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی تو یقینا اُنہیں اپنی مردہ زندگی میں امید کی کرن نظر آنے لگی تھی . مگر مجھے ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا کہ نورین آپی اپنی شکستہ تمناؤں کی آگ میں اتنی جل رہی ہیں کہ کچھ دن بھی صبر نہیں کر پائیں گی اور خود مجھ سے کہہ بیٹھیں گی .
میں : ایک بار پِھر اچھی طرح سوچ لیں آپی . یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے ؟ بَعْد میں پچھتائیں گی تو نہیں ؟
آپی : دیکھو تم انکار کا حق رکھتے ہو . ظاہر ہے اگر تمہارا دِل نہیں مانتا تو میں تمھیں مجبور نہیں کر سکتی . میں نے بس اِس لیے کہہ دیا تھا كہ شاید تم میری ان شکستہ آرزو ں کی تکمیل کر سکو . ورنہ عمر بھر اِس آگ میں جلنا تو ویسے ہی نا صرف میرا ، بلکہ ہم چاروں بہنوں کا مقدر ہے .
میں : میں سمجھتا ہوں آپی . ابھی امبرین اور ثمر ین تو معصوم ہیں . مگر آپ دونوں کے جذبات ، آپ کی خواہشات جو حسرت بن کے آپ کو تڑپا رہی ہیں ، میں سب جانتا ہوں . اور میں دِل میں تہیہ کر چکا تھا کہ اپنی چاروں بہنوں کے دِل کی ہر تمنا خود پوری کروں گا . مگر مجھے یہ امید نہیں تھی کہ آپ اتنی جلدی . . . . . مجھے تو لگتا تھا مہرین آپی ہی زیادہ ترسی ہوئی ہیں اور آپ ان کی نسبت خود پہ زیادہ قابو رکھتی ہیں . مگر یہاں تو معاملہ ہی اُلٹا نکلا .
آپی : میں نے آپی سے بھی کبھی اپنے دِل کی بات نہیں کی سنی . مگر انہوں نے مجھ سے اپنے دِل کی کوئی بھی بات کبھی نہیں چھپائی . اُنہیں بس اتنی حسرت تھی کہ کوئی اُنہیں دیکھ کے سراہے ، ان کی تعریف کرے . وہ مرد کے پیار کو ترسی ہوئی ہیں . ایسا پیار جو ہوس سے پاک ہو . جیسا کہانیوں میں ہوتا ہے . اور جس دن انہیں یقین ہو گیا کہ کوئی انہیں ویسا ہی پیار کرتا ہے تو یقین کرو وہ اسے ہی اپنا سب کچھ سونپ دیں گی . سوچنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگائیں گی میں : آپ کو ایسے پیار کی خواہش نہیں تھی ؟
آپی : تمہاری نظروں میں وہ پیار چھلکتا میں نے پہلے دن سے ہی محسوس کر لیا تھا . جو شخص مجھے میری مر ضی سے چاھے . اس کے پیار میں کیسا شک ؟
میں : تعریف کے لیے شکریہ . اور آپ کی خواہش پہ آج رات ہی عمل ہو گا . لیکن 12 بجے کے بَعْد . 11 بجے مہرین آپی سے پیار کرنے کا وقت طے ہے .
آپی : کوئی بات نہیں . میں انتظار کروں گی .
آپی یہ کہہ کے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تو میں نے ہاتھ پکڑ کے انہیں روک لیا . وہ بنا کچھ پوچھے دوبارہ بیٹھ گئیں تو
میں اٹھ کے الماری کی طرف بڑھ گیا اور الماری کھول کے وہ اِسْپیشَل شاپنگ بیگ نکالا جس میں اسی مقصد کے لیے لیے ہوئے سرخ ریشمی کپڑے تھے . میں نے ان میں سے ایک ڈریس نکال کے باقی اسی طرح واپس رکھ کے الماری بند کر دی اور وہ ڈریس پلنگ کے پاس آ کے نورین آپی کو پکڑا دیا .
میں : آپ کا عروسی لباس . امید ہے پسند آئے گا .
آپی : ( حیران ہو کر ) تم نے پہلے سے لیا ہوا تھا ؟
میں : انہی کپڑوں کے ساتھ ہی لیا تھا ، سب کے لیے ایک ایک . مگر اسی خاص موقع پر دینے کے لیے الگ رکھ لیا تھا
آپی : یعنی تم جانتے تھے کہ ہم چاروں باری باری اپنے نفس کے ھاتھوں مجبور ہو کے تم سے ضرور کہیں گی ؟