سلمان کی سٹوری



قسط نمبر 1:

میرا نام سلمان ہے . 4 بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں . جن میں سے 2 مجھ سے بڑی ہیں یعنی مہرین اور نورین . 2 بہنیں مجھ سے چھوٹی اور جڑواں ہیں امبرین اور ثمرین . میری ایک چچا زا د کزن صباء ہے جو میری دودھ شریک بہن بھی ہے . میری پیدائش پر میری امی کچھ بیمار ہو گئی تھیں تو صباء کی امی نے مجھے دودھ پلایا تھا . اِس طرح وہ بھی میری بہن بن گئی

ہمارا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے جہاں خاندان سے باہر شادیاں نہیں کرتے . خاندان میں اگر مناسب لڑکا نا ملے تو اکثر لڑکیوں کو مجبورا کسی شادی شدہ مرد سے ہی شادی کرنی پڑ جاتی ہے . میری بہنوں كے لیے بھی خاندان میں کوئی مناسب لڑکا نہیں مل سکا اِس لیے وہ بھی اب تک کنواری ہیں اور شاید ہمیشہ کنواری ہی رہیں .
میری تعلیم پر شروع سے ہی ابّا نے بہت توجہ دی اور پرائمری پاس کرتے ہی مجھے آگے پڑھنے كے لیے اپنے چچا کے پاس لندن بھیج دیا گیا جو 3 سال پہلے ہی لندن شفٹ ہوئے تھے . ظاہر ہے میری دودھ شریک بہن صباء بھی وہیں تھی . سو میرا دِل وہاں بھی لگ گیا . صباء شروع سے ہی میرے ساتھ بہت بے تکلف تھی اور اب تو ہمارا ہر پل کا ساتھ تھا . ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے اور ہمیشہ اکٹھے ہی رہتے . پڑھائی بھی اکٹھے ہی کرتے اور اکثر پڑھتے پڑھتے ایک ہی روم میں سو بھی جاتے .
جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے ہماری آپس کی بے تکلفی بڑھتی گئی اور اب ہم کھل کر ایک دوسرے کے پرائیویٹ پارٹس پر بھی کمنٹ کرنے لگ گئے تھے . اس کے بوبز ابھی چھوٹے تھے مگر بہت سیکسی لگتے تھے . میں اکثر آتے جاتے اس كے بوبز پریس کر دیا کرتا اور وہ بھی میرا لن کھینچ دیا کرتی تھی .
صباء كے لیے چچا جان نے انٹرنیٹ بھی لگوایا ہوا تھا جس پر وہ ہر وقت کچھ نا کچھ کرتی ہی رہتی تھی . ایک بار اس نے مجھے ایک انٹرسٹنگ چیز بتائی کہ اگر ہم اپنے پی سی مسلز کی ٹھیک سے ورزش کریں ( یعنی جن مسلز سے ہم اپنا پیشاب وغیرہ روک سکتے ہیں ) اور ان مسلز کو اسٹرونگ کر لیں تو سیکس كے وقت ہم زیادہ سے زیادہ ٹائم انجوئے کر سکتے ہیں . اسی دن سے ہی اس نے مجھے پی سی مسلز کی نیٹ پر بتائی ہوئی ورزش کرنے پہ لگا دیا تھا اور واقعی 2 مہینے كے اندر اندر میرے پی سی مسلز بہت اسٹرونگ ہو چکے تھے . اور اب میں ان مسلز کو 2 گھنٹے تک ٹائیٹ رکھ سکتا تھا . میں نے اسے اپنی اِس کامیابی كے بارے میں بتایا تو وہ بھی بہت خوش ہوئی اور ایک رات تو اس نے کمال ہی کر دیا .
پڑھائی سے فارغ ہوتے ہی اس نے کمرے کا دروازہ لوک کر کے مجھ سے کہا کہ اب تمہارے پی سی مسلز کا امتحان ہو جائے اپنا لن باہر نکالو . میں اس کے منہ سے یہ سن کے حیران رہ گیا . آج تک ہمارے درمیان ہر طرح کا مذاق ہوتا رہا تھا مگر ہم نے کبھی ایک دوسرے کے پرائیویٹ پارٹس دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی . ہمارے ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہتی تھی کہ ہم بہن بھائی ہیں اور ہمارے درمیان سیکس وغیرہ جیسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہئے . مگر اس کی یہ بات مجھے حیران کرنے كے ساتھ ساتھ پریشان بھی کر رہی تھی کہ کہیں وہ مجھ سے سیکس تو نہیں کرنا چاہتی .
خیر میں نے اس کے انسسٹ کرنے پر پینٹ کھول کر نیچے کر دی اور انڈرویئر بھی نیچے کر دیا . میرا لن اب اس کے سامنے ننگا تھا جسے اس نے فوراً ہاتھ میں لے لیا اور اسے ہلانے لگی . کچھ ہی دیر میں میرا لن کھڑا ہو گیا تو وہ اٹھی اور اپنے بیڈ کی سائڈ ٹیبل سے موسچریزنگ لوشن اٹھا لائی اور تھوڑا سا لوشن میرے لن کی ٹوپی پہ گرا کر ہاتھ سے اسے پورے لن پہ مل دیا اور پِھر میری مٹھ لگانے لگی .
میں نے زندگی میں پہلے کبھی مٹھ نہیں لگائی تھی نا ہی میرا کبھی کسی لڑکی سے کوئی سیکشوئل انٹرکورس ہوا تھا . صباء كے علاوہ تو میں کسی لڑکی کی طرف غور سے دیکھتا ہی نہیں تھا اور اب وہی میرا لن ننگا کر كے اس کی مٹھ لگا رہی تھی . میرے اندر عجیب سا نشہ اور سرورلہریں لینے لگا . زندگی میں پہلی بار مجھے ایسا مزہ آ رہا تھا . دِل چاہتا تھا وہ اسی طرح میرے لن کی مٹھ لگاتی رہے اور میں مزے کی وادیوں میں کھویا رہوں .
20 منٹ یوں ہی گزر گئے اور اب مجھے لگنے لگا کہ میرے لن سے کچھ نکلنے والا ہے . پہلے بھی 3 ، 4 بار سوتے میں میرا احتلام ہو چکا تھا اِس لیے میں سمجھ گیا کہ میرا احتلام ہی ہونے لگا ہے . میں نے اسے بتایا کہ میرا احتلام ہونے والا ہے تو اس نے کہا روک لو جیسے پیشاب روکتے ہیں . پی سی مسل ٹائیٹ کر لو . میں نے ایسا ہی کیا اور اپنے پی سی مسلز فل ٹائیٹ کر لیے اور مجھے صاف طور پہ محسوس ہوا کہ میرے اندر سے جو بھی نکلنے والا تھا وہ اندر ہی رک گیا ہے .
صباء نے اسی طرح مٹھ لگانا جاری رکھا اور اسی طرح 1 گھنٹہ گزر گیا . اب مجھ سے برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا . میں نے اس کا ہاتھ ہٹا دیا اور اسے بتایا کہ اب برداشت نہیں ہو رہا . وہ چُپ چاپ سائڈ پہ ہو گئی اور یوں لاپرواہی سے کوئی انگلش گانا گنگنانے لگی جیسے ابھی کچھ دیر پہلے کچھ ہوا ہی نا ہو . کچھ دیر گزری تو میں نے خود کو کچھ ایزی محسوس کیا اور ریلکس ہو كے بیڈ پہ تقریباً لیٹ سا گیا مگر اپنے پی سی مسلز کو ریلیز نہیں کیا . مجھے پتہ تھا اگر میں نے ایسا کیا تو یہیں سیلاب آ جائے گا .
تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بَعْد اس نے پِھر سے میرا لن پکڑ لیا اور پِھر سے مٹھ لگانی شروع کر دی . اِس بار میں نے بھی تہیہ کر لیا تھا کہ اِس بار زیادہ سے زیادہ ٹائم نکا لنا ہے اور میری اسی کوشش کی وجہ سے مزید 45 منٹ یوں گزر گئے کہ پتہ بھی نا چلا اور میں سرور میں ڈوبا انجوئے کرتا رہا اور جب 45 منٹ گزرنے پر مجھے محسوس ہوا کہ اب روکنا مشکل ہے تو میں نے اسے روک دیا . اِس بار اس نے خود ہی مجھے باتْھ روم کی طرف اشارہ کر دیا اور میں اپنی پینٹ اور انڈرویئر سنبھالے باتْھ روم کی طرف بڑھ گیا . وہاں پہنچنے تک بڑی مشکل سے روکا اور پِھر کموڈ کے پاس کھڑے ہو کر اپنے پی سی مسلز ریلیز کر دیئے . میرے اندر سے لاوا سا پھوٹ پڑا اور پورے 2 منٹ تک جھٹکوں سے میری منی نکلتی رہی اور کموڈ میں گرتی رہی . اور جب منی نکلنا بند ہو گئی تو میں نے گہری سانس لیتے ہوئے خود کو بہت پر سکون محسوس کیا اور انڈر وئیر اور پینٹ پہن کر دوبارہ کمرے میں آ گیا . صباء اپنے بیڈ پر ٹانگیں نیچے لٹکائے آنکھیں بند کیے لیٹی تھی اور اِس طرح اس كے بوبز بہت سیکسی لگ رہے تھے .
میں اس کے پاس ہی بیڈ پر لیٹ گیا اور اس کے بوبز پریس کرنے لگا . اس نے آنکھیں کھول كے مجھے دیکھا اور مسکرا دی . میری ہمت بڑھی اور میں نے آگے ہو کے اس کے ہونٹ چومنے شروع کر دیے . وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی اور ساتھ ساتھ میری کمر پہ ہاتھ پھیرنے لگی . اس كے بوبز میرے سینے سے لگے ہوئے تھے اور مجھے مزید جوش چڑھا رہے تھے . میرا لن جو کچھ دیر پہلے ڈھیلا پڑ چکا تھا ، اب پِھر سے کھڑا ہو کر ٹائیٹ ہونے لگا . میرے ھاتھوں نے اس کے ممے اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھے اور وہ ہلکا ہلکا کراہتے ہوئے کس کرنے میں میرا ساتھ دے رہی تھی .
" صباء ! سیکس کریں پلیز " مجھ سے رہا نہیں گیا تو میں اس کی آنكھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ گیا . اس کی آنکھوں میں بھی سیکس کی پیاس نظر آ رہی تھی مگر چہرے سے ہلکی سی بے بسی بھی چھلک رہی تھی . جیسے وہ سیکس کرنا چاہتی تو ہو مگر کسی وجہ سے مجبور بھی ہو .
" ابھی نہیں . میری شادی کے بَعْد کریں گے . " کچھ دیر سوچنے کے بَعْد اس نے کہا تو میں خوش ہو گیا اور پِھر سے اسے کس کرنے لگا . اس کی شادی میں اب زیادہ عرصہ نہیں رہا تھا . انفیکٹ چچا جان نے تو اس کے لیے ایک پاکستانی فیملی کا لڑکا بھی پسند کر لیا تھا جس کے ساتھ کچھ دنوں میں اس کی انگیجمنٹ بھی ہونے والی تھی . ویسے بھی وہ 19‎ سال کی ہو چکی تھی اور یہ عمر انگلینڈ جیسے ملک میں بڑی خطرناک سمجھی جا سکتی تھی . یہ صباء کی ہی ہمت تھی کہ اس نے اب تک خود کو سنبھالے رکھا تھا اور کنواری رہی تھی .
آدھے گھنٹے تک ہم یوں ہی ایک دوسرے سے لپٹے ایک دوسرے سے کس کرتے رہے اور پِھر میں اسے آخری کس کر کے اٹھا اور اپنے کمرے میں آ گیا . ساری رات اس کا حَسِین جِسَم اور خوبصورت رسیلے ہونٹ میری آنكھوں کے سامنے چھائے رہے اور میں ایک پل کے لیے بھی سو نا سکا . اگلے دن وہ بھی کچھ شرمائی گھبرائی سی لگ رہی تھی اور اس کی آنكھوں کے سرخ دوڑے بھی رت جگے کا اظہار کر رہے تھے . خیر اس دن کے بَعْد ہم روز رات کو یوں ہی کچھ دیر کسسنگ وغیرہ کرتے اور اپنے کمرے میں آ کے مستقبل کے سہانے سپنے سجانے لگتے . ایک دو بار تو میرے اصرار پہ اس نے قمیض اور برا بھی اتار دی تھی اور میں نے کافی دیر تک اس کے بوبز چومے اور چاٹے تھے جسے اس نے بھی بہت انجوئے کیا تھا . مگر پِھر ہمیں یہ خطرناک لگا کہ اِس سے سیکس کی پیاس اور بڑھ جاتی تھی . اِس لیے ہم نے دوبارہ نہیں کیا .
خیر وقت گزرتا رہا . 3 منتھس کے بَعْد اس کی انگیجمنٹ ہو گئی اور 1 سال بَعْد شادی . شادی کے بَعْد وہ تو اپنے شوہر کے گھر چلی گئی اور میں اس کی یاد میں روز رات کو گھنٹوں مٹھ لگاتا رہتا مگر اِس احتیاط کے ساتھ کہ مزہ بھی اپنے عروج کو نا پہنچے اور احتلام بھی نا ہو . یہ ادھوری سی مٹھ بھی عجیب سا مزہ دیتی اور میں بنا منی نکالے خود کو گویہ تنہائی کی سزا دیتا رہتا شادی کے ایک ہفتے بَعْد وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہنی مون منانے سوئٹزرلینڈ چلی گئی اور وہاں سے پاکستان چلی گئی . پہلے اپنے شوہر کے رشتےداروں کے ہاں رہیاور پِھر کچھ دن ہمارے گاؤں میں میری بہنوں کے ساتھ ہماری حویلی میں بھی رہی . اِس طرح 3 منتھس بَعْد وہ لندن واپس آئی تو شوہر سے اِجازَت لے کے اپنے ابّا کے گھر رہنے آ گئی .
رات کے انتظار میں ہم دونوں بے قرار تھے اور آخر کار رات ہو ہی گئی . روم لوک کر کے ہم دونوں 1 گھنٹے تک صرف بیڈ پہ لیٹے ایک دوسرے کو کس ہی کرتے رہے . پِھر اس نے اپنے کپڑے اتا رنے شروع کیے تو میں نے بھی اپنے کپڑے اتار دیئے . اس کے بوبز کو ننگا دیکھ کر میں ان پہ ٹوٹ پڑا اور جی بھر کے اُنہیں چُوما اور چاٹا . ایک دو بار تو ہلکا ہلکا بائٹ بھی کیا جسے صباء بھی انجوئے کرتی رہی . پِھر اس نے اپنی ٹانگیں کھول کے مجھے درمیان میں آنے کا اشارہ کیا اور میں نے اس کے حکم کی تعمیل کی . میرا لن کھڑا ہو چکا تھا اور اندر جانے کے لیے بےتاب ہو رہا تھا . اس نے سائڈ ٹیبل سے لوشن اٹھا کے میرے لن پہ ملا اور پِھر مجھے او کے کا سگنل دے دیا .
میں زندگی میں پہلی بار سیکس کرنے والا تھا . اِس لیے ہچکچاتے ہوئے اس کی پھدی کے سوراخ کی طرف اپنا لن بڑھایا اور پِھر سوراخ سے لن ٹچ ہوتے ہی جہاں مجھے ایک عجیب سا کرنٹ لگا ، وہاں وہ بھی اپنی جگہ اُچھل پڑی . ہم دونوں کی نظریں ملیں اور پِھر دونوں ہی ہنس پڑے . میں دوبارہ لن اس کی پُھدی پہ لے گیا اور پِھر سوراخ پہ ایڈجسٹ کرتے ہوئے ہلکا سا پُش کیا تو لوشن کی وجہ سے پھسل کے ایک چوتھائی اندر چلا گیا .
مجھے بہت مزہ آیا . اب تک مٹھ لگانے سے بھی اتنا مزہ نہیں آیا تھا جتنا یوں ایک چوتھائی ہی پُھدی میں ڈال کے آ رہا تھا . کتنی ہی دیر تک تو میں وہاں سے ہلا ہی نہیں . پِھر صباء نے آنكھوں ہی آنكھوں میں پوچھا کہ کیا ہوا تو مجھے ہوش آیا اور میں نے مزید پُش کیا اور آدھا لن اندر چلا گیا . اب آگے پُھدی ٹائیٹ محسوس ہو رہی تھی اور لن پھنس پھنس کے اندر جا رہا تھا . مگر میں نے پُش کرنا جاری رکھا اور آخر کار پورا لن اندر پہنچ گیا .
صباء : تمہارا لن میرے شوہر کے لن سے بڑا بھی ہے اور موٹا بھی . مجھے پہلی بار اتنا مزہ آیا ہے اندر لینے میں .
میں : اور میں تو پہلی بار کر رہا ہوں . میرے مزے کی تو انتہا ہی نہیں ہے .
صباء : پلیز اب جلدی ڈسچارج نا ھونا . روحیل ( اس کا شوہر ) تو 10 منٹ میں ہی فارغ ہو کے سو جاتا ہے . میں سلگتی رہ جاتی ہوں .
میں : میں بھی پوری رات تم سے پیار کرنا چاہتا ہوں میری جان . فکر مت کرو . میں تمھیں پورا مزہ دوں گا . کتنے انتظار کے بَعْد تو یہ رات آئی ہے . اسے میں ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دوں گا .
صباء : اوہ سنی . آئی لو یو جان . اب مجھے مزہ دو پلیز . آگے پیچھے ہو کے زور زور سے جھٹکے لگاؤ . میں تمہارے پیار کے لیے ترس رہی ہوں . مجھے جی بھر کے پیار کرو . میں نے اس کے کہنے كے مطابق آگے پیچھے ھونا اور جھٹکے لگانا شروع کر دیا اور مجھے اور بھی مزہ آنے لگا . تقریباً آدھا گھنٹہ ہم نے اِس پوزیشن میں سیکس کیا اور پِھر میں نے لن باہر نکال لیا . میں نہیں چاہتا تھا کہ ابھی میں کلائیمیکس تک پہنچوں . اِس لیے کچھ دیر اس کے ساتھ لیٹ کے کسسنگ کرتا رہا . وہ بھی شاید سمجھ گئی تھی کہ میں اِس رات کو بھرپور طریقے سے انجوئے کرنا چاہتا ہوں . ہم دونوں 5 منٹ تک کس کرتے رہے پِھر میں نے اس کے بوبز سک کرنے شروع کر دیئے . ایک طرف کا بوب سک کرتا اور دوسری طرف کے بوب کو ہاتھ سے پریس کرتا . اِس طرح آدھا گھنٹہ اور گزر گیا . پِھر میں نے اسے دوسری طرف کروٹ لینے کو کہا اور اس کی اوپر والی ٹانگ کو ذرا سا آگے کو سرکایا تو پُھدی کا راسته بن گیا . میں نے لن پِھر پُھدی میں ڈالا اور اندر باہر کرنے لگا . تقریباً آدھا گھنٹہ گزرنے کے بَعْد ایک بار پِھر میں نے لن باہر نکال لیا . اِس طرح میں نے اس رات تقریباً 6 ، 7 بار کیا . ہر بار کلائیمیکس پر پہنچنے سے پہلے ہی لن باہر نکال لیتا اور 5 منٹ کسسنگ کرنے اور اس کے بَعْد اس کے بوبز سک کرنے کے بَعْد دوسری پوزیشن میں اس کے ساتھ سیکس کرنے لگتا . اِس طرح ہم نے مختلف پوزیشنز میں بھرپور سیکس کیا اور فل انجوئے کیا . پِھر ہم دونوں ہی کیونکہ تھک چکے تھے اِس لیے ہم نے فیصلہ کر لیا کہ اِس بار رکنا نہیں ہے . میں نے بیڈ پہ خود لیٹ کر اسے اپنے لن پہ بیٹھنے کو کہا اور وہ دونوں ٹانگیں میرے ارد گرد پھیلا کر اپنی پُھدی میں میرا لن ڈالتے ہوئے میرے اوپر بیٹھ گئی اور اوپر نیچے ہوتے ہوئے میرا لن اندر باہر کرنے لگی . میں بھی نیچے سے جھٹکے مار رہا تھا اور بھرپور انجوئے کر رہا تھا
اِس پوزیشن میں کافی دیر سیکس کرنے كے بَعْد میں نے وال کلاک پہ ٹائم دیکھا تو مزید 45 منٹ گزر چکے تھے . ہم دونوں نے ہی اپنے پی سی مسلز ٹائیٹ کیے ہوئے تھے اور اپنے کلائیمیکس کو فل انجوئے کر رہے تھے . صباء میرے لن پہ زور زور سے اُچھل رہی تھی اور ساتھ ہی اس کے بوبز بھی اچھل رہے تھے اور بڑا سیکسی نظارہ پیش کر رہے تھے . میں بھی نیچے سے جوش سے بھرپور دھکے لگا رہا تھا . آخِر ہم دونوں کی برداشت کی حد ایک ساتھ ختم ہو گئی . اُدھر صباء کا جسم اکڑنے لگا اور ادھر میرے اندر جیسے لاوا ابل پڑنے اور تباہی مچانے کو مچلنے لگا . ہم دونوں کی آنکھیں ملیں اور پِھر دونوں ہی ایک ساتھ ڈسچارج ہو گئے . میرے لن پہ لکویڈ گر رہا تھا اور میرا بھی کم زور دَا ر جھٹکوں سے نکل رہا تھا . صباء میرے اوپر لیٹ گئی تھی . ہم دونوں تقریباً 30 سیکنڈ تک ڈسچارج ہوتے رہے . اور پِھر میرا لن اس کی پُھدی سے نکلا تو وہ نڈھال سی ہو کے میرے ساتھ لیٹ گئی . میں نے ہاتھ بڑھا کے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور ہم دونوں عجیب سے نشے میں سرشار نا جانے کتنی دیر ایک دوسرے سے لپٹے رہے اور پِھر پتہ نہیں کب ہم دونوں کو ہی نیند آ گئی .صبح پانچ بجے صباء نے مجھے جھنجھوڑ كے جگایا . وہ نہا چکی تھی اور اس کے بالوں سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں . میں نے اٹھ کے اسے گلے سے لگا لیا اور ایک بھرپور کس کی .
میں : تھینکس صباء . یہ رات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی .
صباء : مجھے بھی . تم نے مجھے وہ مزہ دیا ہے جو شاید مجھے زندگی میں پِھر کبھی نا مل سکے .
میں : کیوں ؟ کیا پِھر کبھی نہیں آؤ گی اپنے ابّا كے گھر ؟
صباء : آؤں گی . مگر پِھر شاید تم یہاں نہیں ہو گے . تایا ابّا ( میرے ابّا ) میری خاندان سے باہر شادی پہ بہت ناراض ہوئے ہیں . اب تمہاری اسٹیڈز بھی کمپلیٹ ہو چکی ہیں . گریجوایشن کر چکے ہو . شاید کچھ دن میں ہی تمہارا بلاوا آ جائے اور تمھیں واپس پاکستان جانا پڑے . اِس لیے شاید یہ ہمارا پہلا اور آخری سیکس تھا .
میں : تم آج ہی چلی جاؤ گی اپنے گھر ؟
صباء : ہاں مجھے آج ہی جانا ہو گا . مگر تمھیں میری ایک بات ماننی ہو گی . پلیز وعدہ کرو .
میں : ہاں کہو . زندگی کی اِس سب سے یادگار رات کے بدلے میں اپنی زندگی کا ہر پل تمہارے نام کر سکتا ہوں .
صباء : مجھے یقین ہے جانو . اور یہ بھی یقین ہے کہ اگر یہ رات ہمارے درمیان نا آئی ہوتی تب بھی تم مجھ سے اتنا پیار کرتے ہو کہ میری ہر بات مان لیتے . یہ رات تو ہماری عمر بھر کی محبت کی یادگار تھی جسے ہم دونوں کبھی بھول نہیں پائیں گے . مگر پِھر بھی مجھے تم سے وعدہ لینا ہے . وعدہ لیے بغیر مجھے یقین نہیں آئے گا کہ تم میری وہ بات مانو گے یا نہیں .
میں : کہو نا میری جان . میں وعدہ کرتا ہوں . جو مانگو گی بنا سوچے سمجھے تمہاری نظر کر دوں گا .
صباء : سنی میری جان . تمہاری بہنوں کو تمہاری ضرورت ہے . وہ چاروں جوان ہو چکی ہیں . ان کی بھی وہی ضرورتیں ہیں جو ہر نوجوان لڑکا لڑکی کی ہوتی ہیں . اور ان پہ ظلم یہ ہے کہ ان میں سے کسی کی بھی شادی کا کوئی امکان نہیں . مایوسی کی انتہا پہ پہنچ کے وہ کوئی بھی قدم اٹھا سکتی ہیں . بلکہ مہرین کو تو میں نے محلے کے ایک لڑکے کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھتے پا کے ٹوکا بھی تھا . اسے امید اور یقین بھی دلایا تھا کہ ان چاروں بہنوں کی ہر ضرورت ان کا بھائی یعنی تم پوری کرو گے . یقین کرو سنی وہ میری بات سن كے پہلے تو گھبرا گئی تھی پِھر میرے یقین دلانے پہ اتنی خوش ہوئی کہ مجھ سے لپٹ کے رونے لگی . میں نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ تمہارے سوا کسی کا خیال بھی اپنے دِل میں نہیں آنے دے گی اور باقی 3 بہنوں کو بھی ادھر اُدھر نہیں بھٹکنے دے گی بلکہ تمہاری امانت سمجھ كے سب کو سنبھا ل كے رکھے گی . اب میرے وعدے کی لاج تم نے رکھنی ہے سنی . ورنہ عمر بھر کی بدنامی تمہارے خاندان کی قسمت بن جائے گی .
صباء کی بات پہ غور کرنے پہ واقعی میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے . 4 جوان لڑکیاں جنہیں اپنی شادی سے مایوسی ہو چکی ہو اور بے راہ روی کا رستہ ان کے سامنے کھلا ہوا ہو . ایک ذرا سا موقع ملنے پہ بھی وہ اپنی عزت کسی سے بھی لٹوانے کو تیار ہو جائیں گی . اور جس مرد سے وہ صحبت کریں گی اس سے بات دوسروں کو بھی پتا چلے گی اور پِھر پورے گاؤں میں شہرت پھیل جائے گی . پورے گاؤں میں ہمارا خاندان رنڈیوں کا خاندان مشھور ہو جائے گا . نہیں . یہ نہیں ھونا چاہئے .
مجھے خود ہی ان کی پیاس بجھانی ہو گی . اُنہیں ادھر اُدھر بھٹکنے سے بچانا ہو گا . اِس لیے نہیں کہ صباء نے ان سے وعدہ کیا ہے ، بلکہ اِس لیے کہ وہ میری بہنیں ہیں اور ان کی عزت میری بھی عزت ہے . دِل میں ایک فیصلہ کرتے ہوئے میں نے صباء کو پِھر گلے لگا لیا .
میں : تھینکس صباء . تم نے بہت اچھا کیا جو آپی سے وعدہ لے لیا اور اُنہیں میری طرف سے یقین دلا دیا کہ میں ان کے ساتھ . . . . . میں اپنی بہنوں کو کہیں بھٹکنے نہیں دوں گا . سب کی پیاس بجھاؤں گا . ان کے دِل کی ہر حسرت نکال دوں گا . اتنا پیار دوں گا اُنہیں کہ کبھی کسی اور کی طرف دیکھنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیں گی .
صباء : میں جانتی تھی میری جان . تم یہ سب جاننے کے بَعْد اُنہیں نظر اندازِ کرنے کا سوچو گے بھی نہیں . اسی لیے تو میں نے تمہاری طرف سے انہیں یقین دلایا تھا . اب میں تو آج جا رہی ہوں . 3 ، 4 دن میں تمہاری بھی ٹکٹ آجائے گی پاکستان کی اور فون تو شاید آج ہی آ جائے . اِس لیے مجھے تو آج ہی الوداع کہہ دو . ہو سکتا ہے پِھر کبھی ہماری ملاقات ہی نا ہو .
ہم دونوں کتنی ہی دیر ایک دوسرے سے لپٹے رہے اور تھوڑی تھوڑی دیر بَعْد کس بھی کرتے رہے . پِھر باہر ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے لگی تو میں اسے الودائی نظروں سے دیکھتے ہوئے اس سے الگ ہوا اور اس کے کمرے سے نکل آیا . اپنے کمرے میں جا کے میں نے ٹھنڈے پانی سے باتْھ لیا اور پِھر باہر نکل آیا . چچا اور چچی بھی اٹھ چکے تھے . ہم سب کافی دیر باتیں کرتے رہے . پِھر صباء بھی کمرے سے نکل آئی . سب نے اکٹھے ناشتہ کیا اور ناشتے کے بَعْد صباء کا شوہر اسے لینے آ گیا تو ہم نے اسے الوداع کہہ دیا . یہ شاید ہماری آخری ملاقات تھی .
اسی شام مجھے پاکستان سے ابّا جان کا فون آ گیا اور انہوں نے مجھے فوراً واپس آنے کا حکم دیا . میری ٹکٹ بھی وہ فیکس کر چکے تھے جو مجھے کچھ دیر میں ملنے والی تھی . میں نے چچا جان کو بتایا تو وہ بھی اُداس ہو گئے 3 4 دن ان کے ساتھ گزا ر کے میں نے بل آخِر اُنہیں الوداع کہا اور پاکستان کے لیے فلائٹ لے لی جس کی ٹکٹ مجھے ابّا جان نے بھیجی تھی . اب مجھے اپنی بہنوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچانا تھا .
اپنے گھر آ كے اپنی بہنوں کو اتنے سالوں بَعْد دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا . چاروں ایک سے بڑھ کے ایک حَسِین تھیں . بڑی دونوں تو بھرپور جوان ہو چکی تھیں . جبکہ چھوٹی دونوں جو جڑواں تھیں ، وہ ابھی کم عمر اور معصوم لگتی تھیں . اور واقعی وہ دونوں بہت معصوم تھیں . مجھے دیکھتے ہی مجھ سے لپٹ گئیں اور تب تک نہیں چھوڑا جب تک امی نے ڈانٹ کے مجھے چھوڑنے کو نہیں کہا . ان کی اِس محبت کو میں چاہ کے بھی کوئی غلط معنی نہیں پہنا سکا کہ یہ تو ان کی مجھ سے محبت کا بے ساختہ اظہار تھا اور ان کی اِس حرکت میں بھی ان کی معصومیت جھلکتی تھی . اِس کے بار عکس بڑی دونوں بہنیں کچھ جھجکی سی اور مجھ سے دور ہی رہیں . دور سے ہی سلام دعا اور حال احوال پوچھا اور پِھر سب بڑے حال کمرے میں بیٹھے تب بھی وہ دونوں دور ہی بیٹھیں . جبکہ چھوٹی دونوں یہاں بھی مجھ سے جڑی بیٹھی مجھ سے لندن کے حالات پوچھ سن رہی تھیں . مجھے چھوٹی دونوں بہنوں کی معصومیت کے ساتھ ساتھ بڑی دونوں بہنوں کی جھجک اور گریز پہ بھی پیار آنے لگا اور میں نے تہیہ کر لیا کہ ان چاروں پہ خود سیکس مسلط کرنے کی بجائے صرف ان کی ضرورت پوری کروں گا . ان کی خواہشات جو حسرتیں بن چکی ہوں گی ، اُنہیں پوری کرنے کی کوشش کروں گا . چاھے مجھے اِس كے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے .
صباء نے مہرین آپی کے دِل میں میرے متعلق جو بات ڈال دی تھی اس کا اثر میں ان کے علاوہ نورین آپی پہ بھی دیکھ رہا تھا . وہ دونوں میری طرف دیکھتے ہوئے بھی گھبرا رہی تھیں کہ کہیں میں اُنہیں بھائی کی نظروں سے نا دیکھتے ہوئے سیکس کی نظروں سے تو نہیں دیکھ رہا . جبکہ ثمر ین اور امبرین ان باتوں سے انجان اپنی معصومانہ بے ساختگی سے مجھ سے جڑی بیٹھی تھیں . اُنہیں یہ پرواہ ہی نا تھی کہ وہ دونوں بھی اب جوان ہو گئی ہیں اور اپنے جوان بھائی سے لگی بیٹھی ہیں . میں ان کے لیے شاید ابھی تک بھائی ہی تھا ، ابھی اُنہیں شاید کسی جوان لڑکے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی . اور یہ ان كے لیے بہت اچھی بات تھی کہ ابھی تک وہ اپنی فطری خواہشات کی تڑپ اور نفس کی طلب سے بچی ہوئی تھیں .
اپنی چھوٹی بہنوں کی معصومیت کے ذکر سے آپ یہ مت سمجھیے گا کہ بڑی دونوں بہنوں کی نگاہوں میں غلاظت یا گندگی آ چکی تھی یا وہ سیکس کی آگ میں تڑپ رہی تھیں یا مجھے سیکس کی بھوکی نظروں سے دیکھ رہی تھیں . نہیں . ایسا ہرگز ہرگز نہیں تھا . مشرق کی وہ بیٹیاں ابھی تک مشرقی ہی تھیں اور اپنی شرم و حیا کو انہوں نے ابھی تک رخصت نہیں ہونے دیا تھا . انہوں نے مجھے اب تک کسی اور نظر سے ہرگز نہیں دیکھا تھا بلکہ ان کے ہر اندازِ سے گھبراہٹ جھلک رہی تھی کہ کہیں میں تو اُنہیں اِس نظر سے نہیں دیکھ رہا . اور مجھے ان کا یہ گریز ، یہ گھبراہٹ اچھی لگ رہی تھی . اپنی بہنوں کی شرافت اور پاکیزگی نے مجھے متاثر کیا تھا . نفسانی خواہشات تو ان کی بھی ہوں گی مگر انہوں نے ابھی تک اپنے نفس کو بے لگام نہیں ہونے دیا تھا . اور اور مجھے یہی کوشش کرنی تھی کہ نفس ان پہ اتنا حاوی نا ہو جائے کہ وہ اپنی شرم و حیا رخصت کر بیٹھیں . اگر فطری تقاضے اُنہیں کچھ زیادہ ہی بے قابو کر دیتے تو مجھے ان کا رخ اپنی طرف موڑنا تھا . ورنہ تب تک اُنہیں صرف ایک بھائی ، ایک ہم عمر دوست کی رفاقت مہیا کرنی تھی . ان کے پرابلمز شیئر کرنے تھے ، ان پرابلمز کا سلوشن نکلنا تھا اور ان کی گھبراہٹ دور کرتے ہوئے اُنہیں مجھ پہ اعتبار کرنے پہ مجبور کرنا تھا . اور اعتبار کبھی ایک دن میں قائم نہیں ہوتا . اِس کے لیے طویل کوشش اور عمل کرنا پڑتا ہے . اور مجھے اِس کا آغاز آج سے ہی کرنا تھا .
ہماری باتوں کی محفل اسی حال کمرے میں رات ہونے تک جاری رہی . پِھر امی ابّا نے ہم سب کو سونے کا حکم دے کے اٹھا دیا تو میں بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا . مگر اب مجھے اپنا کمرہ یاد نہیں آ رہا تھا کہ کونسا ہے . حویلی میں ویسے ہی بہت سے کمرے تھے اور اتنے برسوں بَعْد آنے کی وجہ سے میں الجھ سا گیا تھا کس کمرے کا رخ کروں . اتنے میں قریب سے مہرین آپی گزریں تو مجھے دیکھ کے رک گئیں اور پوچھا کہ یہاں کیوں کھڑے ہو . کمرے میں کیوں نہیں جاتے ؟ میں نے بتایا کہ میں کمرہ بھول گیا ہوں تو کچھ دیر تو مجھے شک بھری نظروں سے دیکھتی رہیں پِھر مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہہ کے آگے بڑھ گئیں . ایک ہی رو میں آمنے سامنے بنے ہوئے 8 کمروں میں سے میرا کمرہ سب سے آخر میں دائیں طرف تھا . مہرین آپی نے کمرے کی طرف اشارہ کیا تو میں ان کا گریز محسوس کرتے ہوئے تھینکس کہہ کے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گیا . دروازہ کھولتے ہوئے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ سامنے والے کمرے میں داخل ہو رہی تھیں . اگلے ہی لمحے ان کے کمرے کا لوک لگنے کی آواز آئی تو مجھے شرمندگی سی ہونے لگی . وہ مجھ سے اتنا گھبرا گئی تھیں کہ اپنے کمرے کا دروازہ بھی کھلا نہیں چھوڑا تھا کہ کہیں میں دروازہ کھلا دیکھ کے کوئی بری حرکت نا کر گزروں . یہ بے اعتباری کی انتہا تھی . اور میں نے ان کا اعتبار بَحال کرنا تھا اِس لیے چُپ چاپ اپنے کمرے میں داخل ہو گیا اور اپنے پلنگ پہ لیٹ گیا .
کافی دیر تک کافی دیر تک نیند نہیں آئی اور میں صباء کے ساتھ گزرا وقت یاد کرتا رہا . ہمارا کئی برسوں کا ساتھ تھا جس کا ہر لمحہ ایک خوشگوار یاد بن کے ہمیشہ کے لیے میرے تصور کی اسکرین پہ نقش ہو چکا تھا . انہی خوشگوار یادوں کو تصور میں لیے نا جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا .
اگلی صبح امبرین اور ثمر ین کے جھنجھوڑنے پہ ہی میری آنکھ کھلی . 8 بج چکے تھے اور آدھے گھنٹے میں ناشتہ لگنے والا تھا . اور یہ بات تو مجھے شروع سے ہی یاد تھی اور کل رات کو امی نے بھی بتایا تھا کہ صبح کا ناشتہ 8 : 30 پہ سب اکٹھے کرتے ہیں . میں نے فٹافٹ اٹھ کے باتْھ روم کا رخ کیا اور نہا دھو کے کپڑے تبدیل کر کے باہر نکل آیا . امبرین اور ثمر ین وہیں بیٹھی میری منتظر تھیں . ان کے ساتھ میں کھانے کے کمرے میں پہنچا تو امی ابّا کے علاوہ بڑی دونوں بہنیں بھی آ چکی تھیں . كھانا لگ چکا تھا اور شاید ہمارا ہی انتظار ہو رہا تھا .ناشتے کے بَعْد ابّا جان زمینوں پہ نکل گئے اور امی نے صحن میں ارد گرد کے گھروں سے آنے والی خواتیں کی محفل جما لی امبرین اور ثمر ین کے اصرار پہ میں ان کے ساتھ ان کے کمرے کی طرف چل پڑا تو دونوں بڑی بہنیں بھی پیچھے پیچھے چلی آئیں . شاید اُنہیں مجھ پہ شک تھا کہ میں کوئی نا کوئی غلط حرکت ضرور کروں گا . ان کے ساتھ نہیں تو چھوٹی بہنوں کے ساتھ ہی سہی . مگر میرے دِل میں کیونکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اِس لیے میں نے ان کی پرواہ ہی نہیں کی اور امبرین اور ثمر ین کے ساتھ ان کے کمرے میں پہنچ گیا .
یہاں دو پلنگ اور ایک بڑے صوفے کے علاوہ کارپیٹ پہ 6 کاوچ بھی پڑے ہوئے تھے . میں ان ہی میں سے ایک پہ بیٹھ گیا اور وہ دونوں بھی میرے دائیں بائیں کاوچ پہ بیٹھ گئیں . مہرین آپی اور نورین آپی نے صوفے پہ نشست جما لی اور میری نگرانی کا فرض پورا کرنے لگیں . میں نے اپنی اور صباء کی بچپن کی شرارتوں کے واقعات سنانے شروع کر دیے اور امبرین اور ثمر ین دلچسپی سے سننے لگیں . بار بار ان کی ہنسی کسی پُھلْجَھڑی کی طرح چھوٹ جاتی تھی اور کمرے میں جیسے زندگی سی دوڑ جاتی تھی . مہرین آپی اور نورین آپی بھی کافی دیر سنجیدہ رہنے كے بَعْد آخر کار ان باتوں پہ ہنسنے لگیں تو مجھے بھی اطمینان سا ہوا . ان کی خوامخواہ کی سنجیدگی اور گھبراہٹ مجھے بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی . اور اب جبکہ وہ دونوں بھی دلچسپی لے رہی تھیں اور میری اور صباء کی شرارتوں کو سن کے ہنس رہی تھیں تو مجھے بھی اب سنانے میں مزہ آنے لگا تھا
میں اپنی بہنوں کا دیوانہ..part 2
کافی دیر تک میں اپنے پرانے قصے سناتا رہا اور پِھر بول بول کر میرا گلا خشک ہونے لگا تو امبرین میرے لیے پانی لینے چلی گئی اور ثمر ین ڈرائی فروٹس لینے امی کی طرف . کمرے میں اب میرے علاوہ بس دونوں بڑی بہنیں ہی تھیں جو میرے ساتھ اکیلی رہ جانے پہ ایک بار پِھر گھبرانے لگی تھیں . آخر میں نے بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا
میں : آپ دونوں تو مجھ سے یوں گھبرا رہی ہیں جیسے میں کھا جاؤں گا آپ کو . یقین کریں میں آدم خور نہیں ہوں .
مہرین آپی : ننن . . . نہیں تو . میں تو نہیں گھبرا رہی تم سے . کیوں نورین . تمھیں ڈر لگ رہا ہے ؟
نورین آپی : نہیں تو . . . بھلا . . مم . . . . مجھے کیوں ڈر لگے گا . بھائی سے کیسا ڈر .
میں : یہ بات آپ دونوں قسم کھا کے کہہ سکتی ہیں کہ مجھ سے آپ دونوں کو کسی بات کا ڈر نہیں ؟
میری اِس بات پہ دونوں کے سَر جھک گئے اور دونوں میں سے کوئی بھی میری بات کا جواب نہیں دے سکی .
میں : میں جانتا ہوں آپ دونوں کو مجھ سے کس بات کا ڈر ہے . آپ دونوں کو مجھ پہ ذرا سا بھی اعتبار نہیں ہے . آپ دونوں میرے قریب بیٹھنے سے بھی کتراتی ہیں . مجھے اپنی طرف دیکھتا پا کے خود کو پہلے سے بھی زیادہ اپنی چادر میں چھپانے کی کوشش کرتی ہیں . کمرے میں میرے ساتھ تنہا رہ جانے پہ آپ دونوں کی جان نکل رہی ہے . اتنی واضح علامت دیکھ کے تو کوئی بیوقوف بھی سمجھ جائے گا كہ آپ دونوں کو مجھ سے کیا خوف ہے . میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ؟
میرے اتنے سہی اندازے پہ دونوں پہلے سے بھی زیادہ گھبرا گئیں اور بے اختیار ہی دونوں کے سَر ہاں میں ہل گئے . بَعْد میں دونوں کو ہی اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا تو نا میں سَر ہلانے لگیں . اور ان دونوں کی اِس معصومانہ حرکت پہ بہت ضبط کے باوجود بھی میری ہنسی چھوٹ گئی .
اتنے میں امبرین اور ثمر ین ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں تو مجھے ہنستے دیکھ کے وہ بھی مسکرانے لگیں . پانی کا جگ اور گلاس امبرین نے مجھے پکڑا دیا . ثمر ین ڈرائی فروٹ دو پلیٹس میں لائی تھی جن میں سے ایک اس نے مہرین آپی کو پکڑا دی اور دوسری ہم تینوں کے درمیان رکھ دی . میں پانی پی کے فارغ ہوا تو امبرین مجھ سے میرے ہنسنے کی وجہ پوچھنے لگی .
میں : کچھ نہیں گڑیا . مہرین آپی نے ہاتھی اور چیونٹی والا لطیفہ اتنی سنجیدگی سے سنایا کہ لطیفے کی مٹی پلید ہوتی دیکھ کے میری ہنسی چھوٹ گئی . ویسے تمھیں بھی اِنھوں نے کبھی کوئی لطیفہ سنایا ہے ؟
امبرین : نہیں بھائی . کبھی نہیں سنایا . آپَس میں ایک دوسری کو سنایا ہو تو اور بات ہے . ہمیں تو کبھی نہیں سنایا .
میں : تو پِھر آج رات مہرین آپی ہم چاروں کو لطیفے سنائیں گی اور وہ بھی اپنے کمرے میں . ہے نا آپی ؟
میرے فیصلہ کن اندازِ پہ مہرین آپی جو پہلے ہی گھبرائی ہوئی تھیں ، فوراً ہاں کر بیٹھیں تو نورین آپی نے بھی خوامخواہ ان کی ہاں میں ہاں ملانا ضروری سمجھا جس پہ ایک بار پِھر مجھے ہنسی آنے لگی جسے میں نے بڑی مشکلوں سے ضبط کیا اور امبرین اور ثمر ین سے باتیں کرنے لگا .
وہ سارا دن ہم پانچوں بہن بھائی نے اکٹھے ہی گزارا . بیچ میں دوپہر کے کھانے اور پِھر رات کے کھانے پہ بھی سب اکٹھے ہی رہے . اور پِھر رات کو سب مہرین آپی کے کمرے میں ان کے پلنگ پہ جا بیٹھے اور ان سے لطیفوں کی فرمائش ہونے لگی . میں نے کچھ سوچتے ہوئے اپنا موبائل نکا ل كے اپنے گھٹنے کے پاس اِس طرح رکھ لیا کہ اگر ہمارے جانے کے بَعْد مہرین آپی لیٹنے کی کوشش کرتی تو وہ ان کی پنڈلیوں کے نیچے آ جاتا . یہ میں نے کسی گندی سوچ کے تحت نہیں کیا تھا بلکہ مہرین آپی کو ایک شوک دینا ضروری سمجھتے ہوئے ایسا کیا تھا . مجھے یقین تھا کہ اگر میرا پلان کامیاب ہوا تو اُنہیں تھوڑا بہت جھٹکا تو ضرور لگے گا .
مہرین آپی نے ہم سب کے مجبور کرنے پہ پتا نہیں کس کس سے سنے ہوئے دس بڑے لطیفے بڑی مشکلوں سے سنائے اور پِھر نیند آنے کا بہانہ کرنے لگیں تو ہم سب ان کے پلنگ سے اٹھ کھڑے ہوئے . میں تو اپنے منصوبے کے مطابق رک کے ادھر اُدھر کچھ ڈھونڈنے کی ایکٹنگ کرنے لگا جبکہ اتنی دیر میں نورین آپی اور چھوٹی دونوں کمرے سے جا چکی تھیں . مہرین آپی نے ٹانگیں سیدھی کر کے لیٹتے ہوئے مجھے شک بھری نظروں سے دیکھا مگر میں نظر اندازِ کرتا ہوا اپنی تلاش میں لگا رہا . پلنگ کے نیچے اور چاروں طرف کارپیٹ پہ تلاش کر کے میں بظاہر اپنی تلاش سے مایوس سا ہو گیا تو مہرین آپی کی ٹانگوں کی طرف دیکھنے لگا . میری اِس حرکت پہ مہرین آپی نے فوراً اپنی چادر ٹانگوں پہ پھیلا کے گویا خود کو میری بری نظر سے بچانے کی کوشش کی جو ظاہر ہے ان کی خام خیالی ہی تھی .
" آپی ذرا ٹانگیں تو اٹھائیں . "
میں نے ان کی ٹانگوں کی طرف اوپر نیچے نظریں دوڑاتے ہوئے بہت دھیمی آواز میں اور ایسے اندازِ میں کہا جیسے کوئی بہت ہی پرائیویٹ قسِم کی بات کرنی ہو اور میری اِس حرکت پہ نورین آپی کی وہ حالت ہوئی کے چہرہ ہی سفید پڑ گیا .
" نن . . . نا . . . نہیں . . . . . سنی . . . . . . .. . . . خدا کے لیے . . . ننن . . نہیں . . . . میرے ساتھ کچھ . . . خدا کے لیے نہیں سنی " ڈر اور گھبراہٹ میں ان کی حالت غیر ہوئی جا رہی تھی جس پہ مجھے ترس آنے لگا .
میں : ارے آپ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں ؟ میرا موبائل نہیں مل رہا . میں نے شاید یہیں کہیں رکھا تھا . آپ ٹانگیں اٹھائیں گی تو شاید مل جائے کیونکہ میں اسی جگہ بیٹھا ہوا تھا . ویسے آپ کو اپنی ٹانگوں کے نیچے کچھ محسوس نہیں ہوا ؟
آپی : ہاں . . . ہاں . . . شاید کچھ ہے . . لیکن پلیز مجھے چھونا نہیں . میں دوسری طرف ہو جاتی ہوں . تم اپنا موبائل ڈھونڈ کے چلے جانا .
میں : ہاں تو میں کونسا آپ کو چھو رہا ہوں . آپ کو چھونا ہوتا تو آپ سے ٹانگیں اُٹھانے کو کیوں کہتا ؟ مجھے پتا ہے آپ مجھ پہ کس قسِم کا شک کرتی ہیں . اسی لیے تو آپ کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور آپ سے ٹانگیں اُٹھانے کو کہا تھا .
میری بات سن کے وہ اتنی شرمندہ ہوئی کہ ان کی آنکھیں بھر آئیں . پِھر بھی خود کو سنبھا لتے ہوئے وہ پلنگ کی دوسری طرف ہوئی تو میرا موبائل سامنے ہی پڑا نظر آ گیا جسے اٹھا کے میں نے اپنی پاکٹ میں ڈال لیا اور شکوہ بھری نظروں سے اُنہیں دیکھتے ہوئے کمرے سے نکل کے سامنے اپنے کمرے میں چلا آیا . فل حال ان كے لیے اتنا شوک کافی تھا .
-----------------------------------------------------------------
اگلی صبح ناشتے پہ مہرین آپی میرے سامنے والی کرسی پہ بیٹھی تھیں اور خاصی شرمندہ اور پہلے سے زیادہ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھیں . ناشتہ کرتے ہوئے ان کے ھاتھوں کی کپکپاہٹ امی اور ابو نے بھی نوٹ کی تھی اور ان کے پوچھنے پہ انہوں نے بتایا کہ رات کو بد ہضمی کی وجہ سے ایک دو بار قے کی تھی جس سے کمزوری ہو گئی ہے . امی نے فوراً ایک ملازمہ سے ہاضمے کا چورن منگوا كے تھوڑا سا آپی کی ہتھیلی پہ ڈالا جسے اُنہیں مجبورا كھانا پڑا . میں جانتا تھا کہ اُنہیں کوئی بدہضمی کا مسئلہ نہیں تھا . اصل بدہضمی تو مجھ سے شرمندگی تھی اور اب میں سمجھ رہا تھا کہ ان کی اصل پریشانی بھی یہی ہے کہ مجھ سے معافی کیسے مانگیں گی .
ناشتے كے بَعْد میں جان بوجھ کے اپنا موبائل لینے کے بہانے اپنے کمرے میں چلا آیا اور دروازہ کھلا چھوڑ کے خوامخواہ اپنی الماری کھول کے کپڑے ادھر اُدھر کرنے لگا . کچھ ہی دیر بَعْد میرے اندازے کی تصدیق دروازے پہ ہونے والی دستک نے کر دی . کھلے دروازے کے عین درمیان وہ سَر جھکائے کھڑی تھیں اور آنسو ان کی گالوں پہ پھسل رہے تھے .
میں : آپی اِس وقت کمرے میں اور کوئی نہیں ہے . آپ بَعْد میں آئیے گا جب آپ میرے ساتھ اکیلی نا ہوں .
آپی : اب اور کتنا شرمندہ کرو گے سنی . معاف کر دو نا . وہ . . . صباء نے بات ہی کچھ ایسی کی تھی كہ . .
میں : کیا کہا تھا صباء نے ؟ یہ کہ میں لوفر لفنگا ہو چکا ہوں اور کسی لڑکی کی عزت مجھ سے محفوظ نہیں ہے ، اِس لیے آپ بھی مجھ سے بچ کے رہیں ؟ یا یہ کہا تھا کہ میں ایک عادی عورت باز ہوں اور یہاں اپنی عادت آپ سے پوری کروں گا اور موقع ملتے ہی آپ کی عزت لوٹ لوں گا ؟ یا یہ کہا تھا کہ میری نظر میں بہن بھائی کا رشتہ کوئی معنی نہیں رکھتا ، جب بھی آپ سے تنہائی میں ملا آپ پہ ٹوٹ پڑوں گا ؟ ایسا ہی کچھ کہا تھا صباء نے ؟
آپی : نن . . . . . . . ں . نہیں سنی . اس نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا . وہ . . . وہ تو . . . . . . . اب کیسے بتاؤں .
میں : مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے مزید کچھ جاننے میں . آپ چلی جا ئیں . ورنہ اگر نورین آپی نے دیکھ لیا تو آپ کو تو ابھی تک شک ہے ، اُنہیں یقین ہو جائے گا کہ میں ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا .
آپی : سنی . . . خدا کے لیے اب معاف بھی کر دو . میں ڈر گئی تھی کہ کہیں صباء نے تمھیں کچھ اُلٹا سیدھا . . . خدا کی قسم میں ایسی نہیں ہوں . میرا دامن بے داغ ہے . میرا کسی کے ساتھ . . . کوئی . . . کچھ نہیں ہے . . بس میں ڈر رہی تھی کہ کہیں صباء کی بات سن کے تم مجھے ایسی ویسی لڑکی نا سمجھ لو . . . مجھے لگا تم یا تو مجھ سے نفرت کا اظہار کرو گے یا پِھر مجھ سے فائدہ اُٹھانے کی . . . کوشش کرو گے . . بس اسی لیے میں تم سے کترا رہی تھی . نورین کو بتایا تو وہ مجھ سے بھی زیادہ ڈر گئی . اسے تو لگتا تھا کہ تم اتنا عرصہ ایک آزاد ملک كے بے راہ رَو لوگوں میں رہ کے رشتوں کا تقدس بھی بھول چکے ہو گے . کہیں میرے ساتھ ساتھ اسے بھی ایسی لڑکی سمجھ کے . . . . لیکن خدا کی قسم ہم دونوں ایسی نہیں ہیں سنی . ہم نے تو کبھی کسی کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی . بس ایک غیر محسوس سی غلطی میری آنكھوں سے ہو گئی تھی جس کا احساس مجھے صباء کے ٹوکنے پہ ہوا . یقین کرو اس کے بَعْد تو میں اور نورین چھت پہ بھی نہیں گئیں .
میں : میں نے آپ سے کوئی صفائی نہیں مانگی آپی . 22 دن سے آپ کے سامنے ہوں . کچھ کہا آپ سے میں نے ؟ اب بھی میں اِس کے سوا کچھ نہیں کہہ رہا کہ آپ اِس وقت اکیلی ہیں . کسی کے ساتھ آئیے گا یا جب میرے ساتھ کوئی اور ہو تب آئیے گا . اب جائیے . اگر نورین آپی نے دیکھ لیا تو ان کا شک یقین میں بَدَل جائے گا . بلکہ وہ تو یہ سمجھیں گی کہ میں نے آپ کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے . میری تو خیر ہے مگر آپ ان کی نظروں سے گر جائیں گی . اور میں یہ نہیں چاہتا .
آپی : اب اور کتنا ذلیل کرو گے سنی ؟ اب کیا پاؤں پڑوں تمہارے ؟ کیسے اپنی شرمندگی کا اظہار کروں کہ تمھیں یقین آ جائے ؟ میں خود نورین سے بات کروں گی . اسے سمجھاؤں گی کہ تم ایسے نہیں ہو جیسا ہم نے سمجھا تھا . خدا كے لیے ایک بار میرا یقین کر لو .
میں : ٹھیک ہے . میں نے آپ کو معاف کیا . میرا خدا بھی آپ کو معاف کرے . اب جائیے یہاں سے . نورین آپی آ گئیں تو آپ کی ہر صفائی دھری رہ جائے گی . میرا کریکٹر ویسے ہی بڑا مشکوک ہے .
آپی : بس دھکے دینے کی کسر رہ گئی ہے . اپنی بہن کو کسی بھائی نے اپنے کمرے سے یوں کبھی نہیں نکالا ہو گا .
میں : مجبوری ہے . اگر آج پکڑا گیا تو کل کون مجھ پہ یقین کرے گا . ابھی تو آپ کو جانا ہی ہو گا .
آپی : ٹھیک ہے جا رہی ہوں . کبھی تو کمرے سے باہر نکلو گے . باہر تو کوئی شک نہیں کرے گا . مگر یہ بات میں نے ایک بار تو ضرور صاف کرنی ہے . چاھے تم کتنا ہی ذلیل کر لو . اپنی طرف سے تمہارا ذہن ضرور صاف کرنا ہے .
میں : ضرور . جب آپ چاہیں .
آپی کسی حد تک مطمئن ہوتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئیں . اب تک جتنی بھی باتیں ہمارے درمیان ہوئی تھیں وہ انہوں نے دروازے کے پاس ہی کھڑی ہو کے کی تھیں . نا انہیں اندر آنے کی ہمت ہوئی تھی نا میں نے انہیں اندر آنے دیا تھا . ان کے جانے کے بَعْد میں بھی اپنی الماری بند کر کے باہر نکلنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھا تو مہرین آپی ایک بار پِھر اندر آ رہی تھیں . اور اِس بار ان كے پیچھے نورین آپی بھی تھیں . گویا نورین آپی نے ہماری پوری یا ادھوری باتیں سن لی تھیں اور اگر انہوں نے ادھوری باتیں سنی تھیں تو یہ زیادہ خطرناک بات تھی کہ اِس طرح ان کا شک اور بھی مضبوط ہو جاتا . اور یہ جاننے کا فوری طریقہ میرے ذہن میں موجود تھا .
میں : ارے نورین آپی آپ ؟ تو مہرین آپی نے آپ کو بھی منا ہی لیا . میں نے منع بھی کیا تھا کہ نورین آپی کو ابھی پتا نہیں چلنا چاہئے مگر . . . خیر . . اب تو آپ کو بھی . .
. . نورین آپی : میرے سامنے زیادہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے . میں نے سب کچھ سن لیا ہے . یہ جب تمہارے کمرے میں پہنچی تھیں تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے آ رہی تھی . پِھر تم دونوں کی باتیں سننے کے لیے جان بوجھ کے باہر کھڑی رہی تھی . اور خدا کا شکر ہے کہ سچ جلدی سامنے آ گیا . میری بھی غلط فہمی دور ہو گئی . اب مجھے بھی تم سے کوئی ڈر ، خوف ، کوئی شکایت نہیں . نورین آپی کی بات سن کے میں نے بھی دِل ہی دِل میں شکر کیا . دِل سے جیسے ایک بوجھ سا ہٹ گیا تھا اور میں تھوڑا اور بھی ریلکس ہو گیا تھا .
میں : ارے آپ غلط سمجھ رہی ہیں نورین آپی . مہرین آپی اور میں جان بوجھ کے ایسی باتیں کر رہے تھے کہ اگر کوئی سن لے تو ہمیں غلط نا سمجھے . ورنہ یہاں تو کچھ اور ہی چل رہا تھا .
نورین آپی : ہاں ہاں جانتی ہوں . مہرین آپی دروازے کے پاس کھڑی تھیں اور تم اپنی الماری میں کچھ تلاش کرنے کا ناٹک کر رہے تھے . دیکھ چکی ہوں میں جو بھی چل رہا تھا یہاں . اتنی آسانی سے میری بھی غلط فہمی دور نہیں ہوئی . میں نے جھانک کے دیکھا تھا اور میرے تمام شک دور ہو گئے تھے .
میں : آپ پتا نہیں کیا سمجھ رہی ہیں آپی . میں تو مہرین آپی کا شک دور کر کے آپ کو پٹانے کے پلان بنا رہا تھا . آپ ویسے بھی ان سے زیادہ سیکسی اور اٹریکٹِو ہیں . میں نے سوچا تھا پہلے آپ کو اپنے جال میں پھنسا لوں . پِھر مہرین آپی خود ہی مان جائیں گی .
میں نے یہ بات نورین آپی کے پاس جا کے ان کے کان میں اِس طرح کہی تھی کہ قریب کھڑی مہرین آپی بھی پوری بات سن سکتی تھیں اور یقینا انہوں نے سن بھی لی تھی . تبھی تو انہوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا تھا .
نورین آپی : اچھا ؟ پہلے بتانا تھا نا . میں آپی کے جانے کا انتظار کر لیتی اور پِھر تمہارے پاس آتی . پِھر ہم جو چاھے کر لیتے . مگر اب بھی کیا بگڑا ہے ؟ آپی کو تو ویسے بھی سب پتا چل ہی گیا ہے . تم نے میرے ساتھ جو بھی کرنا ہے ان کے سامنے بھی کر لو گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا . انہوں نے کونسا کسی کو بتانا ہے . بَعْد میں ان کا چانس بھی تو بن رہا ہے نا .
میں تو ویسے ہی دونوں کو تنگ کرنے کے لیے ان کی ٹانگ کھینچ رہا تھا مگر اب نورین آپی نے جوابی حملہ کیا تو مجھے سنبھل جانا پڑا . لوفر پن کی اتنی کامیاب اداکاری کر رہی تھیں کہ اگر مجھے پہلے سے سب کچھ پتا نا ہوتا تو میں یہ سب سچ سمجھ لیتا . مہرین آپی بھی پاس کھڑی مسکراتے ہوئے نورین کا جوابی حملہ انجوئے کر رہی تھیں .
میں : بس میں نے ہار مان لی . آپ ٹانگ کھینچنے میں میری بھی استاد ہیں . آئندہ میری توبہ جو آپ سے پنگا لوں .
مہرین آپی : اب جب کوئی غلط فہمی نہیں رہی تو ہم گلے مل سکتے ہیں نا ؟ سچ کتنا دِل چاہتا تھا اپنے بھائی سے گلے ملنے کو مگر . . . . . ہم سے تو اچھی وہ چھوٹی دونوں ہی رہیں جنہیں کسی کا ڈر خوف بھی نہیں تھا . سب کے سامنے گلے بھی لگ جاتی ہیں اور اپنی فرمائشیں بھی منوا لیتی ہیں .
مہرین آپی کے دِل کی حسرت نے مجھے بھی اندر سے تڑپا کے رکھ دیا تھا مگر میں اِس خوشگوار ماحول کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھا اِس لیے جان بوجھ کے اپنے چہرے پہ گھبراہٹ طاری کر لی .
میں : ارے نہیں آپی . وہ دونوں تو معصوم ہیں . بے ساختگی میں جو بھی کرتی اور کہتی ہیں ، ان پہ بس پیار ہی آتا ہے . مگر آپ دونوں . . . . آپ دونوں پہ پیار آیا تو گڑبڑ ہو جائے گی . ویسے بھی آپ دونوں کچھ زیادہ ہی . . . کہیں میں بہک گیا تو . . .
مہرین آپی : مجھے نہیں پتا . مجھے تم سے گلے ملنا ہے تو بس ملنا ہے .
یہ کہتے ہوئے مہرین آپی نے آگے بڑھ کے میرے گلے میں اپنی بانہیں ڈال کے یوں جکڑا جیسے سارے گزرے برسوں کی کسر نکا لنا چاہتی ہوں . ان کے سیکسی بوبز میرے سینے سے دب کے میرے اندر طوفان مچا رہے تھے جنہیں میں بڑی مشکل سے اندر دبانے میں کامیاب ہوا تھا .
کچھ دیر بَعْد وہ میرے گال پہ کس کرتے ہوئے مجھ سے الگ ہوئی تو نورین آپی مجھ سے لپٹ گئیں . اب ایک اور امتحان مجھے درپیش تھا . ان کے تو بوبز بھی ٹائیٹ تھے اور میرے اندر تباہی مچانے پہ تلے ہوئے تھے . بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ پہ قابو پایا تھا ورنہ دِل تو چاہتا تھا ابھی ان بوبز پہ ٹوٹ پڑوں . مگر مجھے اپنی بہنوں کا اعتبار بَحال رکھنا تھا . کسی بھی حالت میں مجھے اِس اعتبار کو ٹوٹنے نہیں دینا تھا . ویسے بھی میں دِل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ ان سے قربت بس ان کی مر ضی اور خوشی کے مطابق ہی ہو گی اور جس حد تک وہ چاہیں گی اس سے میں ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھوں گا .
میں : اب بس کر دیں . کیوں میرے اندر کے شیطان کو جگانے پہ تل گئی ہیں . ویسے بھی آپ اتنی سیکسی ہیں کہ بس . نورین آپی ہنستے ہوئے میرے کندھے پہ ایک مکا رسید کرتے ہوئے مجھ سے الگ ہو گئیں تو میری بھی جان میں جان آئی . مہرین آپی بھی میرے ان کمنٹس پہ ہنس رہی تھیں . ظاہر ہے نورین آپی کے بوبز کو انہوں نے اکثر فیل کیا ہو گا اور وہ جانتی تھیں کہ ایسے ٹائیٹ قسِم کے بوبز کسی لڑکے کے جذبات میں کیسی ہلچل مچا سکتے ہیں .
اتنے میں کمرے کے باہر امبرین کی آواز سنائی دی جو مجھے پُکار رہی تھی . ثمر ین بھی یقینا اس کے ساتھ ہی تھی کیونکہ وہ دونوں تو ایک دوسری کا سایہ تھیں . کبھی الگ ہوتی ہی نہیں تھیں . میں نے آواز دے کے اسے بتایا کہ میں اپنے کمرے میں ہوں ادھر ہی آ جاؤ .
ثمر ین : آپ تینوں یہاں ہیں . ہمیں بھی بلا لیا ہوتا . کتنی دیر سے بور ہو رہی ہیں . اور بھائی آپ تو موبائل لینے آئے تھے نا کمرے میں ؟ اتنی دیر لگتی ہے موبائل اٹھا کے جیب میں ڈالنے میں ؟ ثمر ین کی شکایت پہ میں نے مسکراتے ہوئے مہرین آپی اور نورین آپی کی طرف دیکھا تو وہ دونوں ایک بار پِھر ہنس پڑیں اِس عجیب سی صورت حال کو اب وہ بھی انجوئے کرنے لگی تھیں .
میں : بیٹھ جاؤ گڑیا . آج ہماری محفل یہیں جمے گی . تم میں سے کسی نے انگلش فلمیں تو نہیں دیکھی ہوں گی نا . میں آج تم چاروں کو ایک انگلش فلم کی کہانی سناتا ہوں . وہ دونوں انتہائی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے میرے پلنگ پہ مجھ سے جڑ کے بیٹھ گئیں . مہرین آپی اور نورین آپی بھی اِس بار فاصلہ رکھنے کی بجائے میرے پلنگ پہ ہی میرے سامنے بیٹھ گئیں اور پِھر میں نے ایک ایڈونچر فلم کی کہانی سنانی شروع کر دی . وہ چاروں اِس کہانی میں یوں گم ہوئے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نا رہا . اسٹوری ختم کر کے ہم سب نے ایک ساتھ وال کلاک کی طرف دیکھا جس پہ دن کے 11 بج رہے تھے .
مہرین آپی : بس بھائی مجھے تو اب جانا ہے . امی آج کل مجھے كھانا پکانے میں ماہر کرنے پہ تلی ہوئی ہیں . کل کو جب باورچی خانے ( کچن ) کی ذمہ داری مجھ پہ آ جائے گی تو پِھر میرے ہی ھاتھوں کے کھانے تم سب کو زہر مار کرنا پڑیں گے .
امبرین : ارے نہیں آپی . اتنا اچھا تو آپ پکا لیتی ہیں . امی نے بتایا تھا کہ رات کو شامی کباب آپ نے ہی بنائے تھے . اتنے اچھے بنے تھے قسم سے . مجھے تو اتنے اچھے لگے تھے کہ اکٹھے 3 کھا گئی تھی .
امبرین کی اِس معصومانہ حوصلہ افزائی پہ ہم سب مسکرا دیئے . پِھر مہرین آپی اٹھ گئیں تو نورین آپی بھی ساتھ ہی چلی گئیں . امبرین اور ثمر ین بھی دلچسپی محسوس کر كے ان کے ساتھ ہی چلی گئیں تو میں کمرے میں اکیلا رہ گیا . پِھر میں نے سوچا کہ کمرے میں بور ہونے کی بجائے شہر کا ایک چکر لگا لینا چاہئے . کچھ شاپنگ ہی ہو جائے . بہنوں کے لیے بھی کچھ لینے کو دِل چاہ رہا تھا . سو امی سے اِجازَت لے کے جیپ نکالی اور شہر کی طرف چل پڑا .شہر کی ایک مشہور بوتیک میں مجھے کچھ ریشمی ڈریسز بہت اچھے لگے تو میں نے چاروں بہنوں کے لیے خریدنے کا فیصلہ کر لیا . ان ڈریسز کی یہ خاصیت تھی کہ قمیض کی بیک سائڈ پہ 3 ڈوریاں لگی ہوئی تھیں جن سے سائز ایڈجسٹ ہو جاتا تھا یعنی اگر فٹنگ زیادہ کرنی ہو تو سمپلی پیچھے سے ڈوریاں ٹائیٹ کر لو اور فٹنگ ہو گئی . سیلز گرل سے پوچھنے پہ پتا چلا کہ یہ ڈریسز 3 رنگو ں ( ریڈ ، گرین اور بلو ) میں میسر تھے اور ہر رنگ میں 4 ، 4 اِس وقت موجود تھے . میں نے بنا کچھ بھی مزید سوچے سمجھے ان سب کو خرید کے پیک کروا لیا . ریڈ کلر کے ڈریسز میں نے الگ پیک کروائے اور باقی دونوں کلرز کے ڈریسز کو اِس طرح پیک کروایا کہ ایک گرین اور ایک بلو ڈریس کو ایک پیکنگ میں رکھتے ہوئے 4 شاپنگ بیگ الگ پیک کروا لیے .
ریڈ ڈریسز کو میں نے کسی خاص دن کے لیے الگ رکھا تھا . باقی دونوں کلرز کے ڈریسز میں اُنہیں آج ہی دے دیتا . اسی لیے میں نے ریڈ کلر کے ڈریسز کسی کو نا دکھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے الگ پیک کروایا تھا . گھر پہنچ کے میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور ریڈ ڈریسز والا شاپنگ بیگ نیچے والے خانے میں رکھ کے لوک کر دیا . جب کہ باقی چاروں شاپنگ بیگس اوپر والے خانے میں ہی رہنے دیئے . اپنے لیے جو ڈریسز میں نے لیے تھے وہ میں نے شاپنگ بیگس سے نکال کے اپنے ڈریسز میں رکھ دیئے . اِس کام سے فارغ ہو کے میں ابھی کمرے سے نکلنے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ امبرین اور ثمر ین کو کمرے میں آتے دیکھ کے رک گیا . وہ مجھے دوپہر کے کھانے کے لیے بلانے آئی تھیں . میں ان کے ساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا اور امی اور ہم پانچوں بہن بھائی نے ایک ساتھ كھانا کھایا . کھانے كے بعد جب امی اٹھ گئیں تو میں نے چاروں بہنوں کو اپنے کمرے میں آنے کا کہا اور ان کو لے کے اپنے کمرے میں آ گیا . پِھر الماری کھول کے میں نے چاروں کو ان کے ڈریسز والے شاپنگ بیگس دے دیے .
میں : میری طرف سے تم چاروں کے لیے تحفہ . اپنے لیے شاپنگ کرنے گیا تھا تو لیڈیز سیکشن میں یہ ڈریسز مجھے بے حد اچھے لگے . سو میں نے تم چاروں کے لیے لے لیے .
مہرین آپی ڈریسز نکلتے ہوئے ) یہ تو دونوں ہی ریشمی ہیں . خاصے مہنگے ہوں گے نا ؟
میں : تحفے کی قیمت نہیں دیکھی جاتی آپی .
امبرین : بہت شکریہ بھائی . ہمارے پاس تو ریشمی کپڑے تھے ہی نہیں . امی لے کے ہی نہیں دیتی ہیں .
ثمر ین : جی بھائی . بہت اچھے ہیں . میں تو آج ہی پہنوں گی . ہیں نا امبرین ؟
امبرین : ہاں اور کیا . مگر امی کو پتا نہیں چلنا چاہیے . کیا پتا اُنہیں ہمارا ریشمی کپڑے پہننا اچھا نا لگے
میں اپنی بہنوں کا دیوانہ..part 3
نورین آپی : امبرین ٹھیک کہہ رہی ہے . امی کو واقعی ہمارا ریشمی کپڑے پہننا اچھا نہیں لگے گا . اسی لیے آج تک لے کر نہیں دیئے .
مہرین آپی : تم دونوں اپنی سالگرہ پہ پہن لینا . اگلے مہینے ہی تو آ رہی ہے تم دونوں کی سالگرہ . اور پِھر لڑکیوں نے ہی تو دیکھنا ہے . امی منع نہیں کریں گی .
مہرین آپی کا مشورہ دونوں کو پسند آیا اور وہ اپنے ڈریسز اپنے کمرے میں رکھنے چلی گئیں . اب کمرے میں میرے علاوہ مہرین آپی اور نورین آپی رہ گئی تھیں .
میں : آپی آخر وجہ کیا ہے ؟ امی آپ سب کو ریشمی کپڑے کیوں نہیں لے کر دیتی ہیں ؟
مہرین آپی : وہ ٹھیک ہی کرتی ہیں سنی . ہم چاروں اب جوان ہو چکی ہیں . اِس عمر میں اپنے جذبات پہ قابو رکھنا ویسے ہی بڑا مشکل ہوتا ہے . ہر وقت دِل چاہتا ہے کوئی ہمیں دیکھنے اور سراہنے والا ہو ، جو ہمارے حسن کی تعریف کرے . اور اِس طرح کے کپڑے تو ویسے بھی ان جذبات میں ہلچل مچا دیتے ہیں . اِس لیے شاید ہم دونوں تو یہ کپڑے نا پہن سکیں . ان دونوں کی تو خیر ہے . ابھی معصوم اور نا سمجھ ہیں . ابھی اِس عذاب سے واقف نہیں ہیں جس سے ہمیں دو چار ہونا پڑتا ہے .
میں : آپ شاید یہ کہنا چاہتی ہیں کہ میں آپ کے کسی کام کا نہیں ہوں . آپ کی کسی بھی خواہش کو پُورا کرنے کی اہلیت مجھ میں نہیں ہے . آپ کی زندگی میں کسی بھی قسِم کی کمی ہو ، میں اسے پوری نہیں کر سکتا . ہے نا ؟
مہرین آپی : ( میری باتوں پہ جھنجھلا کر ) تم ہمارے بھائی ہو سنی .
میں : دوست بھی تو بن سکتا ہوں . اور دوست سے تو اپنی ہر ضرورت کہہ دیا کرتے ہیں . بنا کسی جھجک کے . اپنا راز کھلنے کا خوف بھی نہیں ہوتا . کیا میں آپ دونوں کا دوست نہیں بن سکتا ؟ ایک بار آزما کے تو دیکھیں . آپ کی ہر خواہش پوری نا کر دوں تو میرا وجود بھلا کس کام کا ؟
نورین آپی : ( کسی قدر گھبراتے ہوئے ) ٹی ٹی . . ٹی ٹی . . تم . . . کہنا کیا چاہتے ہو ؟
میں : اپنا ہر دکھ مجھے سونپ دیں ، اپنی ہر خواہش مجھ سے کہہ ڈالیں . آپ کی ہر خواہش پوری کرنا میری ذمہ دا ری .
مہرین آپی : ( غصے سے ) یعنی ہم تمہارے ہاتھوں کا کھلونا بن جائیں .
میں : آپی آپ نے صباء کی باتوں کا بھی غلط مطلب ہی لیا تھا اور اب میری باتوں کا بھی غلط مطلب ہی لے رہی ہیں . میں نے اپنی خواہشات کا نہیں آپ کی خواہشات کا کہا ہے . اور ظاہر ہے آپ کی خواہش یہ تو نہیں ہو سکتی کہ آپ میرے ہاتھوں کا کھلونا بن كے رہ جائیں . اور یہ تو میں بھی کبھی نہیں چاہوں گا . میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ میری بہنوں کے دِل میں کوئی حسرت نا رہ جائے .
نورین آپی : تم سچ کہہ رہے ہو نا ؟ ہماری کسی کمزوری کا فائدہ تو نہیں اٹھاؤ گے ؟ دیکھو ہم ایسی لڑکیاں نہیں ہیں .
مہرین آپی : ہاں . . . اگر تم واقعی سچ کہہ رہے ہو تو قسم کھا کے کہو کہ کبھی ہماری کسی کمزوری کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرو گے . ہمیں اپنے نفس کی تسکین کا ذریعہ نہیں سمجھو گے .
میں : آپ میری بہنیں ہیں آپی . کوئی طوائف نہیں ہیں کہ اپنے نفس کی تسکین کے لیے آپ کو استعمال کروں گا . پِھر بھی آپ کی یقین دہانی کے لیے میں قسم کھاتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے نفس کی تسکین کے لیے آپ چاروں میں سے کسی کو بھی استعمال نہیں کروں گا . ہمارے درمیان جو بھی ہو گا وہ بس آپ کی خواہش کی تکمیل ہو گی . چاھے وہ میرے لیے کتنی بھی مشکل ہو .
نورین آپی : مکر تو نہیں جاؤ گے ؟
میں : آزما كے دیکھ لیں .
مہرین آپی : ( ہچکچاتے ہوئے ) اگر میں کہوں کہ . . . نورین کے سامنے . . . . میرے ہونٹوں کو چوموں تو . .
. . مہرین آپی کی بات سن کے جہاں میں اندر ہی اندر ایکسایٹڈ ہو رہا تھا وہاں نورین آپی کا رنگ اُڑنے لگا تھا . ہم دونوں میں سے کسی کو بھی مہرین آپی سے اِس بات کی امید نہیں تھی .
میں : پہلے ان دو بیچاریوں کو اندر بلا لیں جو کب سے باہر کھڑی ہماری پرائیویٹ قسِم کی باتیں ختم ہونے کا انتظار کر رہی ہیں . میری بات سن کے دونوں ایک ساتھ چلا اٹھیں " کیا . . . . . . . . . . . "
مہرین آپی : تمھیں کیسے پتا ؟ تم نے دیکھا ہے اُنہیں ؟
نورین آپی : آپی اگر انہوں نے کچھ سن لیا ہوا تو . . . ہماری ان کی نظروں میں کیا عزت رہ گئی ہو گی ؟
میں : ظاہر ہے تھوڑا بہت تو سنا ہی ہو گا . وہ دونوں صرف کپڑے رکھنے اپنے کمرے میں گئی تھیں . اِس کام میں اتنی دیر نہیں لگتی کہ اب تک واپسی نا ہو سکتی ہو . یقینا وہ باہر ہی کھڑی ہیں . شاید ہماری باتیں سن لینے کے بعد ہچکچا رہی ہیں کہ اندر جانا چاہیے یا نہیں .
میری بات سن کے دونوں نے ایک دوسری کی طرف دیکھا اور پِھر صورت حال کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ كے رونے لگیں . جبکہ میں اُنہیں روتا چھوڑ كے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گیا جہاں ثمر ین اور امبرین دروازے کے باہر قریب ہی کھڑی تھیں اور دونوں کے سَر جھکائے ہوئے تھے . یعنی میرا اندازہ درست تھا کہ دونوں کافی دیر سے وہاں کھڑی ہے اور سب کچھ سن رہی ہیں .
میں نے اُنہیں اندر آنے کو کہا اور دوبارہ اندر آ گیا . اب مہرین آپی اور نورین آپی صوفے پہ ایک دوسری سے لپٹی بیٹھی تھیں اور دونوں ہی بری طرح سے کانپ رہی تھیں . دونوں چھوٹی بہنوں کی نظروں سے گر جانے کا تصور شاید ان دونوں کے لیے ہی بہت تشویشناک تھا.